سستا نکاح، مہنگی نمائش
کتبہ:
محمد مناظر حسین بہار (20/رمضان المبارک/1446)
نکاح نفس کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ یہ گناہوں سے بچاتا ہے، نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے، نیکیوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ بقائے نسلِ انسانی کا باعث ہے۔ اگر حکمِ نکاح نہ ہوتا، تو زنا عام ہو چکا ہوتا۔ نکاح دو خاندان کو آپس میں جوڑتا ہے۔
نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جس کے بعد مرد و عورت کے لیے آپس میں تعلقات جائز ہو جاتے ہیں۔ جب کسی شخص میں مہر و نفقہ کی استطاعت ہو، اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو، تو اس پر نکاح فرض ہو جاتا ہے۔
لیکن افسوس! آج ہمارے معاشرے میں جب نکاح کا تصور ذہن میں آتا ہے تو چہرے پر اداسی چھا جاتی ہے۔ ایک غریب آدمی لاکھوں روپے خرچ کہاں سے لائے؟ خرچ کم کرے، تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔ رسمیں، کھانے، مہمان نوازی، مہنگے کپڑے، مہنگی سجاوٹ — ہر چیز “ضروری” بنا دی گئی ہے۔ محلے دار، رشتہ دار، سب کی زبانیں تیز ہو جاتی ہیں۔ اور نتیجہ؟ لوگ مجبوراً سودی قرض لیتے ہیں، سالوں اسے چکاتے ہیں، اور نکاح جیسا عظیم عمل ان کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔
کیا نکاح کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنا ضروری ہے؟ کیا جن کے پاس دولت نہ ہو، وہ نکاح کے حق دار نہیں؟ یا ہماری عقل ماری گئی ہے؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے نکاح کو نہایت سادہ بنایا ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول اور مہر۔ بس۔ نہ جہیز کی شرط، نہ پرتکلف دعوتوں کا بوجھ۔
بیٹی کی پیدائش ہوتے ہی والدین فکر میں پڑ جاتے ہیں جہیز، زیور، فرنیچر، نقدی… دل دھڑکنے لگتا ہے کہ کہیں دوسری بیٹی نہ ہو جائے۔ رحمت کو زحمت سمجھ لیا گیا۔ اور یہی وہ سوچ ہے جو ایمان کے منافی ہے۔
جہیز: ایک ہندوانی رسم
شادی کے وقت جو سامان لڑکی کے ساتھ اس کے والدین دیتے ہیں، اسے "جہیز" کہا جاتا ہے۔ یہ رسم ہندوؤں سے لی گئی ہے۔ ان کے ہاں بیٹیوں کو وراثت نہیں دی جاتی، اسی لیے شادی کے موقع پر "تلک" کے نام پر سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ آج وہ بھی اس رسم سے تنگ آ چکے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اسے پوری شدت سے نبھا رہے ہیں۔
مطالبہ کیا جاتا ہے: موٹر سائیکل، نقد رقم، زیور، فرنیچر۔ کہیں کچھ کمی ہو جائے تو نکاح توڑ دیا جاتا ہے، یا بعد میں لڑکی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جب کہ علما کا اتفاق ہے کہ جہیز کا مطالبہ "رشوت" ہے — اور رشوت لینا حرام ہے۔
دلہن کے گھر سے دیا گیا جہیز، اسی کا حق ہے۔ شوہر اگر اس میں بلا اجازت تصرف کرتا ہے، تو وہ بھی گناہ گار ہے۔
دعوت: دکھاوا یا سنت؟
نکاح کی تاریخ جیسے ہی قریب آتی ہے، سیکڑوں دعوت نامے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ دور دراز کے رشتہ داروں کو بھی بلایا جاتا ہے۔ لوگ کئی دن پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ کھانے اتنے بنتے ہیں کہ آدھے کھا لیے جاتے ہیں، آدھے پھینک دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب واقعی ضروری ہے؟ کیا یہی اسلام ہے؟ اگر نیت دکھلاوے کی ہو، تو سوائے گناہ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اسلام نے صرف ولیمہ کا کہا ہے، وہ بھی استطاعت کے مطابق۔ چاہے ایک بکری ہو یا صرف دال روٹی۔
اصل مسئلہ کہاں ہے؟
نکاح تو سستا ہے، مگر ہماری رسومات نے اسے مہنگا بنا دیا ہے۔ نکاح تو آسان ہے، مگر ہم نے اسے مشکل کر دیا ہے۔ پرتکلف دعوتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ناجائز رسومات کی پابندی عقل مندی نہیں، بلکہ سراسر حماقت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس میں بوجھ کم ہو۔"
(مرآۃ المناجیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد: 5، حدیث نمبر: 3097)
ہمیں چاہیے کہ ہندوؤانہ رسومات کو خیر باد کہیں، نکاح کو سنت کے مطابق ادا کریں، اور ایک سچے عاشقِ رسول ہونے کا ثبوت دیں۔