مذاق… جو دلوں کو جلا دیتا ہے

Post Image
کتبہ:محمد مناظر حسین (کٹیہار ، بہار)

مذاق… جو دلوں کو جلا دیتا ہے

انسان زبان و بیان کا شہسوار ہے، لیکن یہی زبان جب بے لگام ہو جائے تو دلوں کو زخمی کرنے کا ہتھیار بن جاتی ہے۔ معاشرے میں اکثر لوگ دوسروں کی ظاہری کمزوریوں، جسمانی نقائص یا عادات کو نشانہ بنا کر “مذاق” کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں، وہ محض تفریح نہیں، بلکہ دلوں کو چیر دینے والا زہر ہوتا ہے۔ ایسا عمل نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ دینی اعتبار سے بھی سخت مذمت کے قابل ہے۔
اس میں کئی برائیاں ہیں ، ایک تو قیمتی وقت کا ضیاع ، دوسرا سامنے والے کو تکلیف دینا ، جس سے آپس میں بدگمانی ، دشمنی پھیلتی ہے ۔ تیسرا بدلے میں وہ بھی گالیاں دے سکتا ہے جس سے لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ اور ایک اچھا انسان کبھی ان چیزوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ شریعت کہاں اجازت دیتی ، قرآن نے فرما دیا :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔
(پارہ: 26، سورہ: الحجرات ، آیت: 11)
شیخ الحدیث والتفسیر مولانا قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: آیت ِمبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے آپ کوبڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم،نہ بڑوں کی بے ادبی،نہ چھوٹوں سے بد لحاظی،نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع،نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے۔
(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۹۴)
حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ یہاں آؤ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)
(موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر… الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷۔ صراط الجنان سے)
ادبا اور حکما کے اقوال : حجاج بن یوسف نے ابن قریہ سے مذاق کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ اس کی شروعات خوشی ہے اور اس کی انتہا رنج ہے۔ عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: مذاق نہیں ہو تا مگر کم عقلی یا اترانے سے۔ کسی ادیب سے بیان کیا گیا ہے کہ تم مذاق سے بچو اس لیے کہ وہ مومن کی دلکشی کو لے جاتا ہے ، اور اس کی مردانگی کو ختم کرتا ہے ، اور کہا گیا: مذاق سخت دشمنی کا سبب ہے، خوبصورتی کو ختم کرتا ہے دوستی بھائی چارگی کو کاٹتا ہے ۔ اور کہا گیا: جب بات چیت کی ابتدا مذاق سے ہو تو اس کی انتہا گالی گلوچ اور تمانچہ ہوگی۔ (ثعالبی)
ایک آدمی سے کہا گیا: تم نے فلاں آدمی کو (اخلاق میں ) کیسا پایا؟ تو اس نے کہا میں نے اسے ملامت اور مذاق میں زبان دراز، بخشش میں بخیل ، برائی پر بہت کودنے والا اور بھلائی سے خوب روکنے والا پایا ۔ ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ رستم کی انگوٹھی میں یہ نقش تھا، مذاق دشمنی کا سبب ہوتا ہے ، جھوٹ نقصان کرنے والا ہوتا ہے اور ظلم فساد برپا کرنے والا ہوتا ہے۔ (طرطوشی)
(علم و ادب کا حسین گلدستہ ، ص: 64، مصباحی اکیڈمی)
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنا یا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے القاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں سے توبہ کرکے باز نہ آئے تو یقینا وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔
(جہنم کے خطرات،ص۱۷۵)
مجلس المدینۃ العلمیہ کی طرف سے شائع رسالہ “تکلیف نہ دیجیے” نے تو کئی اہم باتوں کا ذکر کیا جس طرف عموماً لوگوں کا خیال نہیں جاتا: کسی کی ڈور بیل(Door Bell) بجا کر بھاگ جانا، سونے والوں کی چارپائی دوسری جگہ رکھ دینا، کسی کو کمرے یا باتھ روم میں بند کردینا، بہروپ دھارکر ڈراؤنی شکل بنا کر کسی کو ڈرانا، واش روم کا پانی بند کردینا، دوستوں کی مَنڈلیوں میں ، رشتے داروں کے جھرمٹ میں کسی کا مذاق اُڑا کر، اس پر فقرے کس کر، کسی کے سر پر اچانک چَپت لگا کر ، یا بیٹھنے والے کے نیچے سے کرسی کھینچ کر اس پر ہنسنے بلکہ قہقہے لگانے کو زِندہ دِلی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن اس طرف کسی کا مشکل ہی دھیان جاتا ہے کہ جس کا مذاق اُڑایا گیا اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے بلکہ اگر کوئی ہمت کرکے اپنا صدمہ بیان کردے تو اُسے بُرا بھلا کہا جاتا ہے کہ ’’ہماری اتنی سی بات بھی تم سے برداشت نہیں ہوئی!‘‘ ، یاد رکھئے!کسی مسلمان کو مذاق میں بھی تکلیف پہنچانے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حضرت سیدناعبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ماسے روایت ہے کہ سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :

لَا تُمَارِ أَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہُ وَ لَاتَعِدْہُ مَوْعِدَۃً فَتُخْلِفَہُ۔

اپنے بھائی سے نہ تو جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاؤاور نہ ہی اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو۔
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : آپس کا مذاق جس سے ہر ایک کا دل خوش ہو یہ چند شرطوں سے جائز ہے۔ مگر کسی کا مذاق اُڑانا جس سے سامنے والے کو تکلیف پہنچے بہرحال حرام ہے وہ ہی یہاں مرادہے کیونکہ مسلمان کو اِیذاء دینا حرام ہے۔
(تکلیف نہ دیجیے، صفحہ:50 – 51)
مذاق اگر حدود شرعی سے نکل کر ہو تو بالکل مذموم ہے۔ شریعت کے دائرے میں رہ کر ہو تو خوش طبعی ہے اور یہ رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہے‌۔ جیسا کہ حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ارشاد فرمایا’’کون،وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟عرض کی:اللہ تعالیٰ کی قسم !ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے ۔ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔عرض کی :اللہ تعالیٰ کی قسم!ایسا نہیں ہے۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو(آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے)۔
(سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ، الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ… الخ، ۷ / ۱۱۴۔ صراط الجنان سے)
مذاق اگر حسنِ اخلاق کے دائرے میں ہو تو دلوں کو قریب کرتا ہے، لیکن جب یہ تمسخر اور تحقیر کا رنگ اختیار کر لے تو دلوں کو توڑنے والا گناہ بن جاتا ہے۔ کسی کی شکل، آواز، چال یا کسی کمزوری پر ہنسنا صرف ایک نازیبا حرکت ہی نہیں، بلکہ ایک ایسا ظلم ہے جو شریعت اور اخلاق دونوں کے خلاف ہے ۔ہمارا دین ہمیں عزت، نرمی، اور دوسروں کے جذبات کا احترام سکھاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ نے کبھی کسی کو حقیر نہ جانا، نہ مذاق اُڑایا، بلکہ ہمیشہ دل جوئی اور عزت افزائی فرمائی۔آئیے! ہم خود بھی اس روش سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ تمسخر کو تفریح سمجھنے کے بجائے ایک اخلاقی لغزش سمجھیں، اور دلوں کو جوڑنے والے بنیں، توڑنے والے نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حسنِ اخلاق عطا فرمائے، اور ہر ایسے عمل سے محفوظ رکھے جو کسی دل کو دکھ دے۔
آمین یا رب العالمین۔

Related Posts

جانوروں کے حقوق | قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل اسلامی رہنمائی

کتبہ: الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ فیضانِ مخدوم لاہوری موڈاسا ،گجرات) جانوروں کے حقوق اللہ عزوجل نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اسکی جان ، عزت وآبرو کی حفاظت…

سوشل میڈیا کے دور میں علمائے اہل سنت کی ذمہ داریاں | ایک علمی اور دعوتی رہنمائی

کتبہ: الماس نوری عطاری (متعلّم: جامعۃ المدینہ فیضانِ مخدوم، لاہوری، موڈاسا گجرات) سوشل میڈیا کے دور میں علمائے اہل سنت کی ذمہ داریاں آج سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے۔…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You Missed

مذاق… جو دلوں کو جلا دیتا ہے

  • By admin
  • July 26, 2025
  • 218 views
مذاق… جو دلوں کو جلا دیتا ہے

مایوسی گناہ ہے: اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہوں

  • By admin
  • July 26, 2025
  • 237 views
مایوسی گناہ ہے: اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہوں

سین اور قاف کی طاقت: قلم اور تلوار کی تاریخ ساز قوت

  • By admin
  • July 19, 2025
  • 389 views
سین اور قاف کی طاقت: قلم اور تلوار کی تاریخ ساز قوت

جانوروں کے حقوق | قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل اسلامی رہنمائی

  • By admin
  • July 19, 2025
  • 289 views
جانوروں کے حقوق | قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل اسلامی رہنمائی

سوشل میڈیا کے دور میں علمائے اہل سنت کی ذمہ داریاں | ایک علمی اور دعوتی رہنمائی

سوشل میڈیا کے دور میں علمائے اہل سنت کی ذمہ داریاں | ایک علمی اور دعوتی رہنمائی

سیرتِ مفتی محمد قاسم دامت برکاتہم العالیہ | علمی اصلاحی اور روحانی خدمات کا جائزہ

سیرتِ مفتی محمد قاسم دامت برکاتہم العالیہ | علمی اصلاحی اور روحانی خدمات کا جائزہ