کتبہ:
الماس نوری عطاری
(متعلّم: جامعۃ المدینہ فیضانِ مخدوم، لاہوری، موڈاسا گجرات)
سوشل میڈیا کے دور میں علمائے اہل سنت کی ذمہ داریاں
آج سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے۔ اس دور میں علمائے اہل سنت سے دینی مسائل دریافت کرنے کے بجائے ہماری مسلمان عوام سوشل میڈیا پر مسائل تلاش کرتی ہے، اور نتیجتاً سرفہرست بد مذہبوں، گمراہ فرقوں اور غیر مقلدوں کی ویب سائٹس سامنے آتی ہیں، جن کی تحریریں عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
ایسے پرفتن دور میں علمائے اہل سنت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ میدانِ قلم میں بھی اپنا مؤثر کردار ادا کریں اور اپنی تحریروں کے ذریعے سنی ویب سائٹ کا ساتھ دیں، اپنے مضامین شائع کرائیں، کیونکہ بد مذہبوں کا رد جس طرح تبلیغ اور تقریر کے ذریعے ہوتا ہے، اسی طرح تحریر کے ذریعے بھی ہوتا ہے، اور دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے دشمن جس میدان میں ہو، اس میدان میں ہمیں اترنا پڑے گا۔
مثلاً اگر کسی بد مذہب نے قصائی کی دکان (Mutton Shop) کھولی اور ہم صرف تقریر میں کہیں کہ وہاں سے گوشت نہ خریدو، تو ہم کتنے لوگوں کو روک پائیں گے؟ اور کب تک ہم ہر گاہک کو جا کر روک سکیں گے؟
اس سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اس کے برابر میں دو سنی دکانیں کھولیں، اور اگر وہ ڈیڑھ سو روپے کلو بیچتا ہے، تو ہم سو روپے میں بیچ کر عوام کو متوجہ کریں۔ یہ عملی رد ہے!
اسی طرح اگر دیوبندی، بد مذہب، غیر مقلدین، وہابی، اہل حدیث یہ نیٹ کے ذریعے اپنے باطل عقائد اور فاسد نظریات کی تبلیغ کر رہے ہیں، لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، تو ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم:
سنی ویب سائٹس کی تعداد بڑھائیں
مستند اور تحقیقی سنی مضامین زیادہ سے زیادہ شائع کریں
عوامِ اہل سنت تک حق کی تعلیمات پہنچائیں
اور میدانِ نیٹ پر بھی علمی غلبہ قائم کریں
اور اس میدان میں اتر کر ان سے زیادہ اپنے مضامین شائع کرائیں، سنی علمائے اہل سنت کی تحریروں کو عوامِ اہل سنت تک پہنچائیں، اور رب کے دین کی مدد کر کے قرآنِ کریم میں مذکور فضائل کو حاصل کریں۔
چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔
[محمد: 7]
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں شیخ الحدیث والتفسیر، مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ، تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں، ان میں سے 7 صورتیں درج ذیل ہیں:
1. اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کے لیے دین کے دشمنوں کے ساتھ زبان، قلم اور تلوار سے جہاد کرنا۔
2. دین کے دلائل کو واضح کرنا، ان پر ہونے والے شبہات کو زائل کرنا، دین کے احکام، فرائض، سنن، حلال اور حرام کی شرح بیان کرنا۔
3. نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔
4. دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوشش اور جدوجہد کرنا۔
5. وہ قابل اور مستند علماء جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کی ہوئی ہیں، ان کے نیک مقاصد میں ان کا ساتھ دینا۔
6. نیک اور جائز کاموں میں اپنا مال خرچ کرنا۔
7. علماء اور مبلغین کی مالی خیر خواہی کر کے انہیں دین کی خدمت کے لیے فارغ البال بنانا۔
نوٹ: ان سات صورتوں کے علاوہ اور بھی بہت سی صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے میں داخل ہیں۔
[مفتی محمد قاسم عطاری، تفسیر صراط الجنان، ج: 9، ص: 173، مکتبۃ المدینہ]
بندوں سے مدد مانگنا شرک نہیں
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے۔ اُسے نہ بندوں کی مدد کی حاجت ہے، نہ ہی وہ اپنے دین کی ترویج و اشاعت اور اسے غالب کرنے میں بندوں کی مدد کا محتاج ہے۔ یہاں جو بندوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کا فرمایا گیا، یہ دراصل ان کے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے کہ اس صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ثابت قدمی نصیب ہوگی۔
یہاں اسی حوالے سے مزید دو باتیں ملاحظہ ہوں:
1. اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے، اس میں کوئی دنیاوی مقصد پیشِ نظر نہ ہو۔
2. اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد لینا شرک نہیں، کیونکہ جب بندوں کی مدد سے غنی اور بے نیاز رب تعالیٰ نے بندوں کو اپنے دین کی مدد کرنے کا فرمایا ہے، تو عام بندے کا کسی سے مدد طلب کرنا کیوں شرک ہوگا؟
لہٰذا علمائے اہل سنت کی بارگاہ میں مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ حضرات سنی ویب سائٹوں کا اپنی تحریروں اور مضامین کے ذریعے خوب خوب تعاون فرمائیں، دین کے اس کام میں اپنا بھی حصہ شامل فرمائیں، اور اپنی علمی تحریریں سنی ویب سائٹس کو دیں، تاکہ عوامِ اہل سنت تک صحیح عقیدہ، مستند مسائل، اور اہلِ حق کا پیغام پہنچایا جا سکے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس کارِ خیر میں خوب خوب حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ