احادیثِ صحیحہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موۓ مبارک کا ذکر
کتبہ:
محمد سلیم رضا مدنی
(متخصص فی الحدیث، دعوتِ اسلامی، ہند)
کیا فرماتے ہیں علماء و مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل سوالات کے متعلق کہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سرِ مبارک کے بال مبارک منڈوائے تھے یا نہیں؟
2۔ کیا حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کے مابین بالوں کو تقسیم فرمایا تھا یا نہیں؟
3۔ حضرت خالد بن ولید اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما والے واقعات کن کتابوں میں ہیں؟
مستند حوالہ جات کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں! آپ کی عین نوازش ہوگی۔
سائل: الطاف حسین اشرفی، جموں و کشمیر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
احادیثِ صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالِ مبارک منڈوا کر صحابۂ کرام کے مابین بطورِ تبرک تقسیم فرمائے۔ نیز "بخاری شریف" کی روایت ہے کہ حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موۓ مبارک تھے، اور وہ بطورِ تبرک پانی میں ڈبو کر بیماروں کی شفایابی کے لیے لوگوں کو پانی عطا فرماتی تھیں۔
اسی طرح "عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری" میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بھی مرقوم ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنی ٹوپی میں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بالِ مبارک رکھا کرتے تھے، جس کی برکت سے جنگوں میں آپ کو فتح و نصرت حاصل ہوتی۔
امام بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں:
عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَمَّا حَلَقَ رَأْسَهُ، كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعَرِهِ»۔
ترجمہ: ابنِ سیرین، صحابیٔ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے سرِ مبارک کا حلق کرایا، تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اول تھے۔
(صحیح البخاری، ج 1، ص 75، حدیث نمبر 169، طبع: دار ابن کثیر، دار الیمامہ)
صحابیٔ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ، وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعَرَةٌ إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ»
ترجمہ: میں نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حجام حضور کی حجامت بنا رہا تھا اور صحابۂ کرام آپ کے اردگرد (پروانہ وار) موجود تھے۔ صحابہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بالِ مبارک زمین پر گرے، بلکہ صحابہ کرام اس کوشش میں تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں آکر گرے۔
(صحیح مسلم، ج 7، ص 89، حدیث نمبر 2325، طبع: دار الطباعۃ العامرہ)
مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَتَى مِنًى، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ: لِلْحَلَّاقِ خُذْ، وَأَشَارَ إِلَى جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيهِ النَّاسَ»۔
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ تشریف لائے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں۔ پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور قربانی کی۔ پھر بال مونڈنے والے سے فرمایا: "پکڑو (استرا)" اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرِ مبارک کی دائیں طرف اشارہ کیا، پھر بائیں طرف۔ پھر اپنے مقدس بالِ مبارک صحابہ کرام کے درمیان تقسیم فرما دیے۔
(صحیح مسلم، ج 4، ص 82، حدیث نمبر 1305، طبع: دار الطباعۃ العامرہ)
امام زرقانی علیہ الرحمہ تقسیمِ موئے مبارک کی وجہ بیان فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«وَإِنَّمَا قَسَّمَ شَعْرَهُ فِي أَصْحَابِهِ لِيَكُونَ بَرَكَةً بَاقِيَةً بَيْنَهُمْ وَتَذْكِرَةً لَهُمْ، وَكَأَنَّهُ أَشَارَ بِذَلِكَ إِلَى اقْتِرَابِ الْأَجَلِ»
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے، تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں، اور اسی سے گویا آپ نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ، ج 8، ص 194، طبع: دار المعرفۃ، بیروت)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں بالِ مبارک کا ذکر کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی (ت ۸۵۵ھ) فرماتے ہیں:
«قد ذَكَرَ غَيْرُ وَاحِدٍ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ فِي قَلَنْسُوَتِهِ شَعَرَاتٌ مِنْ شَعْرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلِذَلِكَ كَانَ لَا يُقْدِمُ عَلَى وَجْهٍ إِلَّا فُتِحَ لَهُ»
ترجمہ: کئی آئمہ کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ بال تھے، اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اُنہیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 3، ص 37، حدیث نمبر 170، طبع: دار الفكر، بیروت)
موئے مبارک سے نظرِ بد اور بیماری کا علاج
صحیح بخاری میں ہے:
حدثنا مالك بن إسماعيل: حدثنا إسرائيل، عن عثمان بن عبد الله بن موهب قال: أرسلني أهلي إلى أم سلمة بقدحٍ من ماءٍ - وقبض إسرائيل ثلاث أصابع - من فضة، فيه شعرٌ من شعرِ النبي ﷺ، وكان إذا أصاب الإنسانَ عينٌ أو شيءٌ بعث إليها مخضبَه، فاطلعتُ في الجلجل، فرأيتُ شعراتٍ حمرًا۔
ترجمہ: ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عبداللہ بن موہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا۔ اسرائیل نے تین انگلیاں بند کرلیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی۔ اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم ﷺ کے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان فرماتے ہیں: جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن جناب سیدہ اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا (وہ اس میں نبی کریم ﷺ کے بال ڈبو دیتیں)۔ فرماتے ہیں: میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے)، تو سرخ سرخ بال مبارک دکھائی دیئے۔
(صحیح بخاری، ج 5، ص 2210، حدیث نمبر 5557، طبع: دار ابن کثیر، دار الیمامہ)
اللہ پاک ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب