مزید اپڈیٹس کا کام جاری ہے! اپنے مشورے دیجیے ہم سے رابطہ کریں!

ایصال ثواب کا ثبوت دور صحابہ سے

الماس نوری عطاری, ایصال ثواب کا ثبوت ایصالِ ثواب کے مختلف شرعی طریقے قرآن و سنت کی روشنی میں۔ بھنے چنے، فاتحہ، سورہ یٰسین، صدقہ، اذان، ختمِ قرآن اور
Bu mohammadraza
الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ مخدوم لاہوری، مڈاسہ. درجہ : سادسہ)ایصالِ ثواب کے مختلف شرعی طریقے قرآن و سنت کی روشنی میں۔ بھنے چنے، فاتحہ، سورہ یٰسین، صدقہ، اذان، ختمِ قرآن اور دیگر اعمالِ صالحہ کے ذریعے میت کو ثواب پہنچانے کی معتبر احادیث، تفاسیر اور فقہی اقوال کا جامع بیان۔ الماس نوری عطاری, ایصال ثواب کا ثبوت
کتبہ: الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ فیضانِ مخدوم لاہوری مڈاسہ، گجرات۔ درجہ: سادسہ)

دور صحابہ سے ایصال ثواب کا ثبوت

اللہ کے فضل و کرم اور بے پایاں احسانات سے ہم سنی ہیں، اور سنیوں کا ایک شعار ایصالِ ثواب بھی ہے۔ جہاں سنی حضرات خود دل کھول کر اولیاءِ کرام، اپنے محبین اور اللہ کے نیک بندوں کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کرتے ہیں، وہیں کچھ وہ بھی ہیں جو ان پر اعتراضات کرتے ہیں۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو نفسِ ایصالِ ثواب کا ہی انکار کرتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو مروجہ طریقے کے مطابق ایصالِ ثواب کا انکار کرتے ہیں۔
اِن شاء اللہ عزوجل، ہم اس مضمون میں جانی گے ایصالِ ثواب کا ثبوت کہ کیا ہمارے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام، صحابۂ کرام اور اولیاءِ کرام سے یہ منقول ہے؟ اور اس کا درست طریقہ کیا ہے؟
بعض لوگ نفسِ ایصالِ ثواب میں کلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مردوں کو ثواب پہنچتا ہی نہیں، گویا کہ ان جناب کو کسی نے آ کر کہہ دیا، یا یہ خود جا کر عالمِ برزخ میں دیکھ آئے ہیں کہ مسلمانوں کا کیا دھرا ضائع جاتا ہے اور جن کو بھیجا جاتا ہے، انہیں نہیں پہنچتا۔ یا پھر راستے میں کوئی چور یا ڈاکو بیٹھا ہوا تھا، جو ایصالِ ثواب پر ڈاکا ڈال دیتا اور وہاں نہیں پہنچنے دیتا۔
ان کے اعتراضات کے جواب میں چند احادیثِ مبارکہ پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
عن انس رضی اللہ تعالی عنہ أن رجلًا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "يا رسول الله! إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم، فهل يصل إليهم ذلك؟" فقال: "نعم! إنه يصل إليهم ويفرحون، كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أُهدي إليه."
یعنی امام ابو حفص کبیر، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: "یا رسول اللہ! ہم میت کی طرف سے صدقہ دیتے، حج کرتے، دعا کرتے ہیں، تو کیا یہ سب چیزیں ان کو پہنچتی ہیں؟" فرمایا: "ہاں، وہ ان کو ضرور پہنچتی ہیں اور وہ اس سے اسی طرح خوش ہوتے ہیں، جس طرح تم میں سے ایک آدمی خوش ہوتا ہے جب اس کے پاس طباق ہدیہ دیا جاتا ہے۔"
(رواہ عینی شرحِ ہدایہ، ج:۲، کشوری، ص:۱۶۱۲)
علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری، مرقات شرح مشکوٰۃ، جلد دوم، مصری، صفحہ نمبر 286 میں فرماتے ہیں
أخرج القاضي أبو بكر بن عبد الباقي الأنصاري رحمه الله عن سلمة بن عبيد قال، قال حماد المكي: "خرجت ليلة إلى مقابر مكة، فوضعت رأسي على قبر فنمت، فرأيت أهل المقابر حلقة حلقة، فقلت: قامت القيامة؟ قالوا: لا، ولكن رجل من إخواننا قرأ (قل هو الله أحد) وجعل ثوابه لنا، نحن نقتسمه منذ سنة."
یعنی قاضی ابو بکر بن عبدالباقی انصاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، مشیخت میں سلمہ بن عبید سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: حماد مکی نے فرمایا کہ میں ایک شب مکہ کے قبرستان میں گیا، ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا، تو قبرستان والوں کو دیکھا کہ حلقہ حلقہ کیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا: "کیا قیامت قائم ہو گئی؟" ان لوگوں نے کہا: "نہیں، لیکن ہمارے بھائیوں میں سے ایک شخص نے (قل ھو اللہ احد) پڑھ کر اس کا ثواب ہم لوگوں کو بخشا ہے، تو اس کو ایک سال سے ہم لوگ بانٹ رہے ہیں۔"
جو کہتے ہیں کہ مردوں کو ایصالِ ثواب کرنا ان تک پہنچتا ہی نہیں، تو ان سے سوال ہے کہ یہ مردے پھر کس چیز کو تقسیم کر رہے تھے؟
اسی میں ایک اور روایت ہے، صفحہ نمبر 281 پر۔ امام نووی شافعی، کتاب الأذکار میں تحریر فرماتے ہیں کہ محمد بن احمد مروزی تلمیذ پر برمی متوفی 271 نے کہا کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا، وہ فرماتے ہیں: "جب تم قبرستان جاؤ تو سورہ فاتحہ اور تینوں قل پڑھو اور اس کا ثواب اس قبرستان والوں کو بخشو، کہ وہ ان کو پہنچتا ہے۔"
مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، جن کی جلالتِ شان ہر کس و ناقص جانتا ہے اور جن کے علم کے مرتبے کا معترضین بھی اعتراف کرتے ہیں، آپ اپنی کتاب "الدر الثمین فی مبشرات النبی الأمین" صفحہ نمبر 8 میں تحریر فرماتے ہیں:
"بائسویں حدیث: مجھے میرے سردار والد ماجد نے خبر دی کہ میں ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال کچھ فتوح نہ ہوا، جس سے میں کھانا پکوا سکوں، تو میں نے بھنے چنے منگوائے اور اسی کو لوگوں میں تقسیم کیا۔ تو میں زیارتِ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوا، دیکھا کہ حضور کے سامنے وہ بھنے ہوئے چنے رکھے ہیں اور آپ بہت خوش اور بشاش ہیں۔"
معلوم ہوا کہ ثواب بدنی ہو یا مالی، یا جس طرح سے بھی ہو، سب مردوں کو پہنچتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو چیز ایصالِ ثواب کے لیے پکائی جاتی اور تقسیم کی جاتی ہے، وہ بعینہٖ پہنچتی ہے۔
رہیں وہ حضرات جو ایصالِ ثواب کے طریقے پر کلام کرتے ہیں، ان کا جواب یہ ہے: قرآنِ پاک میں مردوں کے لیے ایصالِ ثواب کے متعدد طریقے بتائے گئے ہیں۔ ان میں سے جس طریقے کو انجام دیا جائے گا، مردے کو ثواب ملے گا، اور اگر کوئی شخص سب طریقے بجا لائے تو اور بہتر ہے۔
1: مغفرت کی دعا کرنا
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠
ترجمۂ کنز الایمان: "اور وہ جو اُن کے بعد آئے، عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے، اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ، اے رب ہمارے! بے شک تو ہی نہایت مہربان، رحم والا ہے۔"
(الحشر: آیت 10)
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں: 1. ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے بلکہ اپنے بزرگوں کے لیے بھی دعا کیا کرے۔ 2. بزرگانِ دین، خصوصاً صحابۂ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عرس، ختم، نیاز اور فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں، کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے۔ 3. مومن کی پہچان یہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اچھی عقیدت رکھے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرے۔
(صراط الجنان، تحت الآیۃ)
2: میت کی نمازِ جنازہ پڑھنا بھی ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے
وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-
ترجمۂ کنز الایمان:"اور ان کے مرنے کے بعد ان کی نمازِ جنازہ پڑھو، اس لیے کہ آپ کا ان پر نمازِ جنازہ پڑھنا ان کے لیے سکون و وقار ہے۔"
3: مسلمان میت کی قبر پر جانا، اس کی جگہ ٹھہرنا اور اس کی زیارت کرنا بھی ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ(84)
ترجمۂ کنز الایمان: "اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے۔"
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں تفسیرِ کبیر، جلد 4، صفحہ نمبر 710 میں ہے کہ زجاج نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ کریمہ یہ تھی کہ جب کسی میت کو دفن کرتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور اس کے لیے دعا کرتے، تو حضورِ پاک علیہ السلام کو اس بات سے منع کیا گیا کہ آپ منافقین کی قبر پر نہ ٹھہریں۔"
اب رہی یہ بات کہ کون کون سی سورت پڑھی جائے یا کون کون سی آیات پڑھی جائیں، تو اس میں اختیار ہے، کوئی خاص سورت ضروری نہیں۔ ہاں، جن سورتوں کا ثواب خصوصیت کے ساتھ مذکور ہے، جیسے سورہ فاتحہ، اول و آخر سورۂ بقرہ، آیۃ الکرسی، سورۂ یٰسین، اِنَّا اَعْطَیْنَا، چاروں قل وغیرہ، ان کا پڑھنا افضل اور اعلیٰ ہے۔
(کنز العمال، جلد 1، صفحہ 139 تا 145)
4: دعا سے پہلے کوئی عملِ صالح کرے تاکہ خداوندِ عالم کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو، خصوصاً صدقہ کہ اس باب میں اثر تمام رکھتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(12)
ترجمۂ کنز الایمان: "اے ایمان والو! جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے، پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔"
(المجادلہ: 12)

اولیاءِ کرام کے مزارات پر شیرینی لے جانے کی دلیل

اس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اولیاءِ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے مزارات پر صدقہ کرنے کے لیے شیرینی وغیرہ لے کر جانا جائز ہے، چنانچہ صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: "حضرت مترجمِ مقدس سرہ (یعنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) نے فرمایا: یہ اس کی اصل ہے جو مزاراتِ اولیاء پر تصدق کے لیے شیرینی وغیرہ لے جاتے ہیں۔"
(خزائن العرفان، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 12، ص: 1005)
اس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناجات کی یہ قدر ہے کہ حضور سے سرگوشی کے پہلے صدقہ کرنا ضروری ہے، تو خدا سے مناجات سے پہلے صدقہ کرنے کا ثبوت تو بدرجۂ اولیٰ ہوتا ہے۔
یہاں ایصالِ ثواب کرنے کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہدِ مبارک میں مردوں کے لیے ایصالِ ثواب کے متعدد طریقے تھے۔ ان میں سے اِن شاء اللہ عزوجل چند طریقے بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
۱: سورۂ یٰسٓ شریف پڑھنا یہ عمل مرنے کے بعد ہی نہیں، بلکہ موت کے وقت بھی ثابت ہے۔
چنانچہ سنن ابی داؤد، جلد ۳، صفحہ نمبر ۸۹ میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے مردوں پر سورۂ یٰسٓ پڑھو۔"
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور میں فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سورۂ یٰسٓ پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے سب گزشتہ گناہ معاف فرما دے گا، تو تم اسے مردوں کے پاس پڑھا کرو۔
۲: کسی بزرگ کے پہنے ہوئے متبرک کپڑے میں کفن دینا
چنانچہ حضرت اُمِّ عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جب حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صاحبزادی کا انتقال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند مبارک عنایت فرمایا کہ اسے بدن سے متصل رکھو۔
(بخاری، جلد ۱، صفحہ ۱۳۹)
علامہ عینی (شرح بخاری، جلد ۴، صفحہ ۴۶) میں فرماتے ہیں کہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنی تہبند مبارک دینے میں مصلحت یہ تھی کہ حضور علیہ السلام کے آثار شریفہ سے برکت حاصل کی جائے۔
۳: میت کے کفن پر کوئی آیت، کلمۂ طیبہ، عہد نامہ یا کوئی دعا لکھنا
چنانچہ امام ترمذی نے نوادر الاصول میں روایت کی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص یہ دعا کسی پرچے پر لکھ کر میت کے سینے پر کفن کے نیچے رکھے، اسے عذابِ قبر نہ ہوگا اور نہ منکر نکیر نظر آئیں گے۔" اور وہ دعا یہ ہے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اس بارے میں ایک مستقل رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے، جس کا نام "الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن" ہے۔
۴: جنازہ کو دیکھ کر تعریف کرنا اور میت کی خوبیوں کو بیان کرنا
چنانچہ امام بخاری، امام مسلم اور امام ترمذی رحمہم اللہ اجمعین نے روایت کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک جنازہ لے کر لوگ گزرے، صحابۂ کرام نے اس کی تعریف کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "واجب ہو گئی۔" پھر دوسرا جنازہ گزرا، تو لوگوں نے برائی بیان کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "واجب ہو گئی۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: "کیا واجب ہو گئی؟" ارشاد فرمایا: "پہلے جنازے والے کی تم لوگوں نے تعریف کی، تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ اور دوسرے کی تم لوگوں نے برائی کی، تو اس کے لیے جہنم کی آگ واجب ہو گئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔"
5 بعدِ دفن قبر پر اذان دینا
چنانچہ امام احمد، طبرانی اور امام بیہقی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ دفن ہو چکے اور قبر درست کر دی گئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک "سبحان اللہ، سبحان اللہ" فرماتے رہے، اور صحابۂ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم "اللہ اکبر، اللہ اکبر فرماتے رہے، اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے۔ پھر صحابہ نے عرض کیا "یا رسول اللہ! حضور پہلے تسبیح، پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے؟" ارشاد فرمایا "اس نیک مرتبہ پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے وہ تکلیف اس سے دور کر دی اور قبر کشادہ فرما دی۔"
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر آسانی کے لیے بعدِ دفن قبر پر "اللہ اکبر، اللہ اکبر" بار بار فرمایا۔ اور یہی کلمات اذان میں چھ بار کہے جاتے ہیں، بلکہ اذان میں تو اس کے علاوہ بھی اور کلمات کہے جاتے ہیں، لہٰذا اس عمل سے مزید فوائد ہی ہوں گے، کوئی نقصان نہ ہوگا۔
۶: دفن کے بعد سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیتیں اور پائنتی میں سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنا
چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن علاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے وصیت کی: "میرے دفن کے بعد میری قبر پر سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات (الم سے مفلحون تک) اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ سے ختمِ سورت تک) پڑھی جائیں۔" اور فرمایا: "میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا کہ وہ اس کی وصیت کیا کرتے تھے۔"
۷: ختمِ قرآن کا ایصالِ ثواب کرنا
جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب لیث بن سعد کی قبر کی زیارت کو گئے، تو ان کی تعریف کی اور ایک ختمِ قرآن شریف کیا اور فرمایا:"میں امید کرتا ہوں کہ یہ کارِ خیر ہمیشہ جاری رہے۔"اور ان کے فرمانے کے مطابق ہوا، یعنی سنی حضرات ابھی تک ختمِ قرآن کا ایصالِ ثواب کرتے ہیں
لہٰذا مذکورہ باتوں سے یہ ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب عہدِ صحابہ سے لے کر اب تک ہر زمانے میں مختلف طریقوں کے مطابق رائج رہا ہے۔
اللّٰہ عزوجل ہمیں ہمیشہ اپنے مرحومین، اپنے محبوب بندوں اور اولیاء کرام کے لیے ایصالِ ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کا ہمیں خوب اجر عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
Oops!
It seems there is something wrong with your internet connection. Please connect to the internet and start browsing again.
AdBlock Detected!
We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.
Site is Blocked
Sorry! This site is not available in your country.
NextGen Digital واٹس ایپ چیٹ پر آپ کو خوش آمدید
السلام علیکم ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہئں؟?
Type here...