فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف نقشبندی۔ اربعین حنفیہ۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اﷲِ    ُ  تَعَالیٰ  عَنْہُ قَالَ:قَالَ: رَسُوْلُ  اﷲِ   صَلَّی  اﷲ ُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وإِنَّمَا لِکُلِّ  إمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی  اﷲ ِ  وَرَسُولِہ ِ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی  اﷲ ِ  وَرَسُولِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اَلٰی دُنْیَا  یُصِیْبُھَا اَوِ إمْرَأَۃٍ  یَتَزَوَّجُھَا  ھِجْرَتُہٗ إِلٰی مَا ھَاجَرَ  إِلَیْہِ‘‘۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ  .(صحیح البخاری ۱/۳ ، الصحیح لمسلم  ۱/ ۱۴۰ ، سنن ابی داؤد ۱/۳۰۰ ،النسائی ۱/۲۴)


ترجمہ حدیث۔ 

حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہسے روایت ہے کہا انہوں نے ،فرمایا رسول کریم صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے ،سوائے اس کے نہیں اعمال ( کا اعتبار اور خدا کی درگاہ میں قبولیت) نیتوں(1)کے ساتھ ہے ۔یعنی کوئی عمل بدونِ نیت معتبر اور مقبول نہیں ۔اور کسی آدمی کو اس کے کام میں حصہ یا ثواب نہیں مگر وہی جو اس نے نیت کی پس جس شخص کی ہجرت محض خدا عزوجلاور اس کے رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمکیلئے ہو (یعنی اس کی نیت میں طلب رِضا و امتثال امر شارع (اﷲ تعالیٰ  ورسول صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم کی پیروی  )ہو) تو اس کی ہجرت خدا عزوجلاور اس کے رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے لئے ہے ۔(یعنی مقبول ہے اور اس پر ثواب عظیم مترتب ہوتا ہے ) اور جس کی ہجرت محض حصولِ دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہجرت کرتا ہو (خدا عزوجلاور رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمکی رِضامندی کیلئے نہ ہو )تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی یعنی حصول دنیا یا نکاح ۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ (1) امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :بیشک جو علم نیت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کر سکتا ہے مثلاً ، جب نماز کیلئے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھو نگا تو بے شک اس کا یہ چلنا محمود ،ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دوسرے پر گناہ محو کریں گے مگر عالم نیت اس ایک فعل میں اتنی نیتیں کرسکتا ہے اصل مقصود یعنی نماز کو جاتا ہوں(۲)خانۂ خدا کی زیارت کرونگا(۳) شعار اسلام ظاہر کرونگا (۴)داعیالی اﷲ کی اجابت کرتا ہوں(۵) تحیۃ المسجد پڑھنے جاتا ہوں(۶) مسجد سے خس و خاشاک وغیرہ دور کرونگا(۷) اعتکاف کرنے جاتا ہوں کہ مذہب مفتیٰ بہ پر(نفلی) اعتکاف کیلئے روزہ شرط نہیں ۔ایک ساعت کا بھی ہوسکتا ہے ، جب سے داخل ہو باہر آنے تک اعتکاف کی نیت کرے ۔ انتظار نماز و ادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (۸) امر الٰہی’’ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ‘‘  (اپنی زینت لو جب مسجد جاؤ) کے امتثال کو جاتا ہوں ۔ (۹) جو وہاں علم والا ملے گا اس سے مسائل پوچھوںگا، دین کی باتیں سیکھوں گا (۱۰) جاہلوں کو مسئلہ بتاؤںگا، دین سکھاؤںگا (۱۱)جو علم میں میرے برابر ہوگا اس سے علم کی تکرار کروں گا (۱۲) علماء کی زیارت (۱۳) نیک مسلمان کا دیدار (۱۴)دوستوں سے ملاقات(۱۵) مسلمانوں سے میل (۱۶) جو رشتہ دار ملیں گے ان سے بکشادہ پیشانی مل کر صلۂ رحمی (۱۷) اہل اسلام کو سلام (۱۸) مسلمانوں سے مصافحہ کروںگا (۱۹) ان کے سلام کا جواب دوں گا (۲۰) نماز باجماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کروں گا (۲۱) و (۲۲) مسجد میں جاتے نکلتے حضور سید عالم  پر سلام عرض کروں گا(۲۳) و (۲۴) دخول و خروج میں حضور و آل حضور و ازواج حضورپر درود بھیجوں گا  اللھم صلی علی سیدنا محمد وعلی ال سیدنا محمد وعلی أزواج سیدنا محمد صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم(۲۵) بیمار کی مزاج پرسی کروںگا (۶ ۲) اگر کوئی غمی والا ملا تعزیت کروں گا (۲۷) جس مسلمان کو چھینک  آئی اور اس نے ’الحمد ﷲ ‘ کہا اسے ’یرحمک اﷲ‘ کہوں گا(۲۸)امر بالمعروف (۲۹)و نہی عن المنکر کروں گا (۳۰)نمازیوں کو وضو کا پانی دوں گا  (۳۱)و (۳۲)خود مؤذن ہے ، یا مسجد میں کوئی مؤذن مقرر نہیں تو نیت کرے کہ اذان و اقامت کہوں گا۔اب یہ کہنے نہ پایا یا دوسرے نے کہہ دی تاہم اپنی نیت کا ثواب پاچکا ،فَقَدْ وَقَعَ أجَرُہ‘ عَلٰی اﷲِ (۳۳)جو راہ بھولا ہوگا اُسے راستہ بتاؤں گا(۳۴)اندھے کی دستگیری کروں گا (۳۵) جنازہ ملا تو نماز پڑھوں گا  (۳۶)موقع پایاتوساتھ دفن تک جاؤں گا۔ (۳۷)دومسلمانوں میں نزاع ہوئی۔ 



شرح حدیث


اس حدیث میں بڑا علم ہے ۔ امام شافعی و احمدرَحِمَھُمَا اللّٰہُ تَعَالیٰنے اس حدیث کو ثلث اسلام یا ثلث علم فرمایا ہے۔بیہقی نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ علم یا دل سے ہوتا ہے یا زبان سے یا بقیہ اعضاء سے اور نیت عمل دل کا ہے۔ اس لئے یہ حدیث علم کا تیسرا حصہ ہوئی ۔مرقاۃ (1 )  اکثر مصنفین اصلاح نیت کے لئے اپنی کتابوں کو اسی حدیث سے شروع کیا کرتے تھے ۔اس حدیث میں جناب رسول کریم صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے اخلاص کی ہدایت فرمائی ہے ۔ اور ہر عمل کے ثواب کو نیت پر موقوف فرمایا ہے ۔اگر اعمال میں نیت نیک ہے تو ثواب ہے ورنہ نہیں ۔ہجرت ایک عمل ہے اگر اس میں حق سبحانہ و تعالیٰ کی رِضا او ر امتثالِ امر مقصود ہے تو موجبِ برکات ہے ۔اگر یہ نہیں تو کچھ نہیں ۔اسی طرح انسان جو عمل کرتا ہے اگر اس میں رضائے حق مقصود ہے تو باعثِ اجر ہے ورنہ نہیں۔اب اس حدیث سے جو فوائد مستنبط ہوسکتے ہیں(نکالے جاسکتے ہیں)   وہ سنو اور خوب یاد رکھو ۔

۱۔  ایک شخص اپنے قریبی کو کچھ خیرات دیتا ہے ۔ اگر صرف اس کی غریبی کا خیال کرکے دیتا ہے ۔صلہ رحمی کی نیت نہیں تو صدقہ کا ثواب پائے گا۔لیکن صلہ رحم نہ ہو گا۔ اگرمحض صلہ رحمی کے لئے دیتا ہے تو صلہ رحم کا ثواب ہوگا۔ صدقہ کا ثواب نہ ہوگا۔ اگر دونوں نیت کرے تو دونوں ثواب پائے گا۔معلوم ہوا کہ ایک کام میں متعدد نیتیں کرنے سے ہر ایک نیت پر ثواب ملتا ہے          ۔

۲۔ مثلاً مسجد میں بیٹھنا ایک عمل ہے اگر اس میں بہ نیت اعتکاف بیٹھے تو اعتکاف کا ثواب پائے گا ۔ اگر نیت اعتکاف کے ساتھ یہ نیت بھی ہوکہ جماعت کا انتظار ہے تو بحکم حدیث (جماعت کا منتظر نماز میں ہے ) اس کو نماز کا ثواب بھی ملے گا (2 )۔پھر اسکے ساتھ اگر یہ نیت کرے کہ آنکھ کان اور تمام اعضاء کی جملہ منہیات(ممنوعہ باتوں سے)سے حفاظت ہو گی تو یہ ثواب بھی حاصل ہوگا۔ پھر اس پر یہ نیت بھی کرے کہ صلوٰۃ وسلام آنحضرت صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر بیٹھ کر پڑھوں گا تو اس کا ثواب بھی پائے  گا۔ اگر یہ نیت بھی کرے کہ حج و عمرہ کا ثواب ملے (جیسے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص وضو کرکے مسجد میں جاوے اس کو حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے ) تو اس کو یہ ثواب بھی ملے گا (3 )۔پھر اس پر یہ نیت بھی کرے کہ مسجد میں علم کا افادہ یا استفادہ ہوگا یا امر ِمعروف اور نہیِ منکر حاصل ہوگا تو اس ثواب کو بھی ضرور حاصل کرلے گا۔ پھر اگر یہ نیت بھی کرے کہ کوئی دینی بھائی مسجد میں ملے گا اس کی زیارت سے مستفیض ہوں گا تو یہ او ر اجر ہوگا۔اسی طرح اگر نیت تفکر(غوروفکر،سوچ بچار)و مراقبہ (حضوری دل سےاﷲ عزوجلکادھیان کرنا) کی کرے کہ مسجد میں تنہا ہوکر دل کی جمعیت(یکسوئی)کے ساتھ مراقبہ کروں گا تو یہ اجر بھی پائے گا۔ الغرض جتنی نیتیں کرے گا سب کا ثواب پائے گا کیونکہ حدیث شریف کے الفاظ اِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَویٰکا یہی مطلب ہے کہ جو نیت کرے گا وہ پائے گا۔ 

۳۔ اسی طرح اگر کسی میت کے ساتھ کوئی شخص نقدی یا غلہ قبر پر لے جائے۔ اور اس کی نیت یہ ہو کہ قبر پر مساکین جمع مل سکتے ہیں ۔نیز عام مساکین جنازے میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ تو کوئی حرج نہیں ہے ۔میت کیلئے جو کچھ دیا جائے گا حق سبحانہ‘ و تعالیٰ اس کا ثواب اس میت کو ضرور پہنچائے گا۔ ہاں اگر اس کی نیت درست نہیں بلکہ محض دکھاوا مقصود ہے تو خواہ گھر کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر خیرات کرے گا اس کا کچھ ثواب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ نیت صحیح نہیں۔ معلوم ہواکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔اگر نیت خدا عزوجلکے لئے اور ایصالِ ثواب ہے تو قبر پر لے جانے سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا اور اگر نیت میں ریا ہے تو گھر میں بھی کچھ نہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ ایسے امور میں نیت صحیح ہو ۔ نہ یہ کہ ایسے کام ہی چھوڑ دیں۔

۴ ۔ اسی طرح میت کے بعد تیسرے یا ساتویں یا دسویں یا چالیسویں دن کھانا پکاکر مساکین کو کھلایاجائے(4 )۔اس میں بھی اگر وارثوں کی نیت یہ ہے کہ ان دنوں میں مساکین جمع ہوجاتے ہیں یا دوسرے خویش و اقارب (قریبی رشتہ دار)آجاتے ہیں یا معیّن کرنے کے سبب کچھ نہ کچھ ادا ہوجاتا ہے نہ معیّن کرنے سے رہ جاتے ہیں تو معیّن کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر نیت ہو کہ ان اوقات مخصوصہ میں کھانا کھلانا تو پہنچتا ہے آگے پیچھے کا ثواب نہیں پہنچتا ۔ تو یہ نیت غلط ہے ۔اس کی اصلاح کردینی چاہیئے کہ میّت کو جس روزکچھ ثواب پہنچانا چاہے پہنچتا ہے ۔ کھانا ہو یا نقدی یا قِرأتِ قرآن تخصیص ایام (دنوں کو خاص کرنا) کوئی ضروری نہیں ۔ اگر کوئی مصلحت ہو تو حرج بھی نہیں ۔معلوم ہوا کہ نیت پر اعمال کا مدار ہے ۔ نیت ایصالِ ثواب ہے تو جس روز دے گا ثواب پہنچے گا۔ تیسرا دن ہو یا ساتواں یا دسواں ۔اگر نیت ریا ہے تو سب کچھ بے کار ہے ۔  

۵۔ اسی طرح اگرمیّت کے بعد لوگ بیٹھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں۔ ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ خالی چپ چاپ بیٹھنے سے بجز حقہ کشی (حقہ پینا)اور واہیات  (فحش اور گندی باتیں)فضول باتوں کے اور کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگرکلمئہ طیّبہ جس کی نسبت حدیث شریف  ( 5)میں ’’اَفْضَلُ الذِّکْرِ ‘‘  آیا ہے پڑھتے رہیں تو یقینا موجب برکت ہے ۔ پھر اگر محض روایات کے مطابق ستّرہزاربارہوجائے اور میّت کو بخشا جائے تو امید مغفرت ہے ۔تو کیا وجہ ہے کہ بموجبِ حدیثإنما لإمریٰ مانوی کلمہ پڑھنے والوں کو ان کی نیت کے مطابق ثواب نہ ملے ۔ جب حضو ر علیہِ السّلام نے فرمایا ہے کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے او ر ہرشخص کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی ۔ تو ضرور اجر ملے گا۔ پھر وہ میّت کو بخشیں گے تو ضرور میّت کو بھی پہنچے گا ( 6)۔

۶۔ اسی طرح مجلسِ میلاد کا کرنا اور جلوس نکالنا ہے ۔ تاکہ رسول کریم صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّمکی شان ظاہر ہو اور اسلام کی عزّت و عظمت و ہیبت مخالفینِ اسلام کے دلوں میں جاگزیں (رچ بس جانا‘چھا جانا)ہو۔ تو اسی حدیث کی روسے جائز ہے کہ اس کی نیت نیک ہے ۔ 

۷۔ اسی طرح ہر وہ کام جس کی ممانعت رسول کریم صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے نہ فرمائی ہو نیک نیت کے ساتھ جائز اور کارِ ثواب ہے۔ 

۸۔ قرآن شریف جنابت کی حالت میں پڑھنا منع ہے لیکن اگر بہ نیت دعا پڑھے تو درست ہے ۔ مثلاً وہ آیات جن میں دعا ہے جنبی کو بہ نیت  قراءت قرآن پڑھنا حرام اور بہ نیت دعا جائز ۔ ( 7) 

۹۔  اسی طرح جناز ہ میں سورئہ فاتحہ کا پڑھنا امام او ر مقتدی دونوں کے لئے بہ نیت قرائت درست نہیں اور بہ نیت دعا درست ہے  (8 )۔

الحاصل ہر کام میں نیک نیت ہونا چاہیئے ۔حضرت سیدنا مولانا روم نے مثنوی شریف میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص نے مسجد کے پاس اپنا مکان بنوایا اور مسجد کی طرف ایک دریچہ (  کھڑکی)رکھا۔ اس کے پیر نے پو چھا کہ یہ دریچہ کس لئے رکھا ہے ۔اس نے کہا کہ ہوا کے لئے ۔آپ نے فرمایا کہ اگر یہ نیت کرتا کہ یہ دریچہ محض اس لئے رکھا کہ مسجد سے اذان کی آواز آجائے یا جماعت کے کھڑے ہونے کا علم ہوجایا کرے تو ہوا خود بخود آجایا کرتی اور تجھے اس کاثواب (بھی )ہوتا ۔

۱۰۔ اشعۃ اللمعات میں شیخ عبدالحق محدث دہلویعلیہ الرحمۃفرماتے ہیں کہ احادیث میں آیا ہے کہ جب ملائکہ بندوں کے اعمال آسمان پر لے جاتے ہیںاﷲتعالیٰفرماتا ہےاَلْقِ تِلْکَ الصَّحِیفَۃَ اَلْقِ تِلْکَ الْصَّحِیْفَۃَاس صحیفہ کو ڈال (پھینک)  دے ، اس صحیفہ کو ڈال دے ۔ وہ فِرشتہ عرض کرتا ہے کہ خدایا تیرے اس بندے نے نیک باتیں کیں نیک عمل کئے ہم نے سنا، دیکھا اس کی نیکیوں کے دفتر میں لکھا ،اب اسے کس طرح ڈال دیں ۔حکم ہوگا کہ لَمْ یُرِدْ بِہٖ وَجْھِیْکہ اس بندہ نے اس عمل کے ساتھ میری رِضا کا ارادہ نہیں کیا۔ یعنی اس کی نیت اس عمل میں میری رِضا نہ تھی۔ اس لئے میرے حضور میں مقبول نہیں ۔اسی طرح ایک دوسرے فِرشتے کو حکم ہوگااُکْتُبْ لِفُلاَنٍ کَذَا وَ کَذَا۔ فلاں بندہ کے اعمال نامہ میں فلاں فلاں نیک عمل لکھ دے ۔ فِرشتہ عرض کرے گا کہ خدایا اس نے تو یہ کام کیا نہیں تو کیسے لکھ دوں ۔ حکم ہوگا کہ اس نے نیت کی تھی ۔ اس کا ارادہ کرنے کا تھا مگر اس سے نہ ہوسکا۔ ( 9)سبحان  اﷲ دیکھئے نیت نیک کرنے سے بغیر کئے اعمال کا ثواب مل گیا اور بری نیت سے کئے ہوئے اعمال ضائع ہوئے ۔  اﷲ  تعالیٰ سب مسلمانوں کو اخلاص کی توفیق دے ۔ (  اٰمین بجاہ النبی الامینصلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم)-----------------------------

( 1)..المرقاۃ  ۱ /۹۸    
( 2)..صحیح البخاری۱/۹۰ 
( 3)..سنن ابی داؤد۱/۲۳۱۔
( 4)..حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی αعلیہ الرحمۃنے اس موضوع پر جاء الحق ص۲۴۷ میں تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔
( 5)..شعب الایمان ۴/۹۰۔  
( 6)..حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی ، یارسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور انہوں نے کسی قسم کی وصیت  نہیں کی اور میرا گما ن ہے کہ اگر انہیں کلام کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ دیتیں لہذا  کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو ثواب پہنچے گا ، تو آپ نے فرمایا، ہاں۔ الصحیح لمسلم ۲/۴۱، سنن ابی داؤد ، ۲/۴۳
( 7)..بہار شریعت ۲/۴۳ ۔
( 8)..بہار شریعت۴/۱۵۴ ۔
( 9)..اشعۃ اللمعات ۱/۳۹ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Sports

Responsive Ad