کتبہ:
الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ مخدوم لاہوری، مڈاسا۔ درجہ : سادسہ)
حق اور باطل میں فرق
بعض لوگ بےباکی اور لاعلمی کی وجہ سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ، بھائی! سب ٹھیک ہیں، دیوبندی لوگ بھی تو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، دین کا کام کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
تو ان کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ، پیارے بھائی! چور کبھی ظاہر نہیں کرتا کہ وہ چور ہے۔ بلکہ چور اپنے آپ کو ایسا بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے کہ کوئی گمان ہی نہ کر پائے کہ وہ چور ہے۔ جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ ایک بار آپ ان بد عقیدوں کی ان عبارتوں کا مطالعہ کریں، اور بغور مطالعہ کریں، جن میں انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ، حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام، ملائکہ اور انبیاءِ کرام کی شان میں گستاخیاں کی ہیں۔ تو اگر آپ انصاف بھرے دل سے مطالعہ کریں گے تو آپ یقیناً ان کو گمراہ کہیں گے۔
اور ہمارا دیوبندیوں یا ان جیسے گمراہ لوگوں سے جو اختلاف ہے، وہ اس وجہ سے تھوڑی نہ ہے کہ یہ لوگ فاتحہ نہیں کرتے، سلام نہیں پڑھتے۔
بلکہ ان لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف اور صرف انہی عبارتوں کی وجہ سے ہے، جن عبارتوں میں انہوں نے صریح اور واضح طور پر انبیاءِ کرام، صحابۂ کرام اور اولیاءِ کرام کی شان میں گستاخی کی ہے۔
اب دیوبندی حضرات اور اہلِ سنّت کا مسلک ملاحظہ فرما کر حق و باطل میں خود ہی فرق کریں۔
دیوبندیوں کا مذہب:
(1) اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ (معاذ اللہ)
(فتاویٰ رشیدیہ، ج 1، ص 19)
2. شیطان اور ملک الموت کا علم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے، اور شیطان کو پورے روئے زمین کا علم حاصل ہے، یہ دلیلِ شرعی سے ثابت ہے، اور حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے اس کو ثابت کرنا شرک ہے۔ (معاذ اللہ)
(براہینِ قاطعہ، ص 51)
3. اشرف علی تھانوی نے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمِ غیب کو زید، عمر، بچوں، پاگلوں بلکہ تمام حیوانات اور جانوروں کے علم کی طرح بتایا۔(معاذ اللہ)
(حفظ الایمان، ص 8)
4. نماز میں حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دل میں خیال لانا، بیل اور گدھے کے خیال میں ڈوبنے سے بھی بدتر ہے۔(معاذ اللہ)
(صراطِ مستقیم، ص 86)
5. قرآنِ پاک میں مذکور "خاتم النبیین" کا معنیٰ آخری نبی مراد لینا یہ عوام کا خیال ہے، یعنی حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں یا حضور کے بعد بھی اگر کوئی نبی ہو جائے تو بھی حضور کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔(معاذ اللہ)
(تحذیر الناس، ص 3)
اہلِ سنّت و جماعت کا مذہب:
1. اللہ تعالیٰ کے لیے جھوٹ کو ممکن سمجھنا شانِ الوہیت میں گستاخی ہے، اہلِ سنّت کے نزدیک ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
2. اہلِ سنّت کے نزدیک شیطان اور ملک الموت کے لیے پورے روئے زمین کا علم ثابت کرنا، اور حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کی نفی کرنا بارگاہِ رسالت میں سخت ترین گستاخی ہے۔
اور یہ کہنا کہ شیطان اور ملک الموت کے لیے پورے روئے زمین کا علم ثابت ہونے پر دلیلِ شرعی بھی موجود ہے، یہ قرآن و حدیث پر سخت جھوٹ باندھنا ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں۔
3. اہلِ سنّت کے نزدیک حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم تمام کائنات کے علم سے ممتاز ہے، اور حضور کے علم کو پاگلوں، بچوں اور جانوروں کے علم کی طرح بتانا بارگاہِ رسالت میں سخت ترین توہین ہے۔
4. اہلِ سنّت کے نزدیک حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نماز میں خیال لانا، یہ نماز کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ بندہ تشہد میں "السلام علیک أیها النبي" پڑھتا ہے، جو کہ واجب ہے۔
اور حضور کے خیال کو گدھے اور بیل کے تصور سے بدتر قرار دینے والا خود ہی بدترین اور گستاخِ رسول ہے، ایسے شخص کو اہلِ سنّت جہنمی اور ملعون قرار دیتے ہیں۔
5. اہلِ سنّت کے نزدیک قرآن میں مذکور لفظ "خاتم النبیین" سے آخری نبی مراد ہے، اس پر اجماعِ امت ہے، یعنی تمام امت کے علماء اس پر متفق ہیں۔
پیارے بھائیو! یہ چند عقائد اہلِ سنّت اور دیوبند پیش کیے گئے، اس کے علاوہ بہت سے بدترین ان کے عقائد ہیں، جو مختصر مضمون میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔
اگر آپ چاہیں تو ان کی اصل کتابوں سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔
اب آپ خود ہی بتائیں، حضور کی شان میں اتنے گستاخانہ کلمات کہنے والے کو ہم اچھا کہیں گے؟ ان کے ساتھ رہیں گے؟
نہیں! بلکہ ان سے دوری اختیار کریں گے، جس طرح آگ سے دور ہوا جاتا ہے۔
کیونکہ آگ تو انسان کے بدن کو جلاتی ہے، اور اگر بندہ جل بھی جائے تو کچھ دوا وغیرہ کے بعد وہ ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن اگر ان کی صحبتِ بد سے ہمارے عقائد جل گئے، ہمارے عقائد خراب ہو گئے، تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا پڑے گا۔
اور یقیناً دنیاوی آگ سے کئی کروڑ گنا زیادہ خطرناک آگ، جہنم کی ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو حضور سے سچی محبت کرنی چاہیے۔
اور قرآنِ پاک میں تو تعظیم اور محبتِ رسول کو ایمان اور عبادت کی مقبولیت کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُۙ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
ترجمہ کنزالایمان: اے نبی! بے شک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ او رخوشخبری دیتا اور ڈر سناتا، تاکہ اے لوگو!تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو۔
(الفتح: 8-9)
مسلمانو! دیکھو، دینِ اسلام بھیجنے، قرآنِ مجید اتارنے کا مقصود ہی تمہارے مولیٰ تبارک و تعالیٰ کی یہ تین باتیں بتانا ہے:
1. یہ کہ لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائیں۔
2. یہ کہ رسولُ اللہ ﷺ کی تعظیم کریں۔
3. یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہیں۔
مسلمانو! ان تینوں جلیل باتوں کی جمیل (خوبصورت) ترتیب تو دیکھو کہ سب سے پہلا مقصد ایمان کو فرمایا اور سب سے آخر میں اپنی عبادت کو، اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کی تعظیم کو۔ اس لیے کہ بغیر ایمان، تعظیمِ رسول کچھ کام کی نہیں، کیونکہ بہت سے عیسائی ایسے ہیں کہ نبی ﷺ کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور حضور پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتابیں لکھ چکے اور لیکچر دے چکے، مگر جبکہ ایمان نہ لائے، تو کچھ مفید نہیں۔ یہ ظاہری تعظیم ہوئی، اگر دل میں حضورِ اقدس ﷺ کی سچی عظمت ہوتی تو ضرور ایمان لاتے۔
پھر جب تک نبی ﷺ کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھر عبادتِ الٰہی میں گزارے ہوئے لمحات سب بیکار اور مردود ہیں، کیونکہ بہت سے جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرکے اپنے طور پر ذکر و عبادتِ الٰہی میں عمر کاٹ دیتے ہیں، بلکہ ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں، مگر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے۔ کیا فائدہ؟ ان کی یہ عبادت بالکل بھی بارگاہِ الٰہی میں قبول نہیں۔
اللہ عز و جل ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
(الفرقان: 23)
ترجمہ کنز العرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔
ایسوں ہی کے بارے میں فرمایا گیا:
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ(۳) تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً
(الغاشیہ: 3-4)
ترجمہ کنز العرفان: کام کرنے والے ، مشقتیں برداشت کرنے والے۔بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ (والعیاذ باللہ تعالیٰ)
مسلمانو! کہو، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ﷺ کی تعظیم ایمان، نجات اور قبولِ اعمال کے لیے ضروری ہوئی یا نہیں؟ کہو، ہوئی اور ضرور ہوئی!
تمہارا رب عز و جل فرماتا ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
(التوبہ: 24)
ترجمہ کنزالایمان: اے نبی! تم فرما دو کہ اے لوگو! اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا کنبہ، تمہاری کمائی کے مال، اور وہ کاروبار جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے، اور تمہارے پسندیدہ مکانات، یہ سب چیزیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں کوشش کرنے سے زیادہ محبوب ہیں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے، اور اللہ نافرمانوں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز، اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے۔ اسے اللہ اپنی طرف راہ نہ دے گا اور اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے۔ (والعیاذ باللہ تعالیٰ)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ سے سچی محبت عطا فرمائے اور گستاخانِ رسول سے بچائے۔
آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ