موبائل فون کے فوائد و نقصانات
زمانہ ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہے، اور انسان اس کی پشت پر جھولتا ہوا جدیدیت کے میدان میں دوڑتا جا رہا ہے۔ اس دوڑ میں ایک ایسی شے اس کے ہاتھ آ چکی ہے، جس نے نہ صرف فاصلوں کو سمیٹ دیا بلکہ دنیا کو اس کی ہتھیلی میں لا رکھا ہے؛ وہ شے "موبائل فون" ہے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا آلہ ہے، مگر اس کے اندر دنیا جہاں کی وسعتیں اور گہرائیاں سمٹ آئی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا آلہ صرف راحت و آسانی کا ذریعہ ہے، یا یہ ذہن و روح کی زنجیر بھی بن چکا ہے؟
موبائل فون کے فوائد
1. رابطے کا انقلاب:
ماضی میں، جب کسی پیغام کو پہنچانے کے لیے ہفتے درکار ہوتے تھے، آج موبائل نے وہ پیغام لمحوں میں پہنچا دیا۔ جہاں بھی کوئی عزیز، دوست یا متعلق شخص ہو، صرف ایک کال یا پیغام کے ذریعے اُس سے رابطہ قائم کرنا ممکن ہو چکا ہے۔
موبائل نے انسانی رشتوں کو ٹوٹنے سے بچایا، مسافتوں کو محبت میں بدلا، اور اکیلے انسان کو اپنی آواز کے ذریعہ دنیا سے جوڑ دیا۔
2. علم کی وسعتوں تک رسائی:
اس آلے نے علم کے خزانے کھول دیے۔ طلبہ آن لائن اسباق، اساتذہ کے لیکچرز، تفسیری و حدیثی کتب، تحقیقی مضامین، حتیٰ کہ مدارس کی کتب بھی ایک کلک پر حاصل کر سکتے ہیں۔
کسی زمانے میں جس علم کے حصول کے لیے دہلی، لکھنؤ یا بغداد جانا پڑتا، وہ آج موبائل کی اسکرین پر جلوہ گر ہے۔
3. ہنگامی حالات میں زندگی کا سہارا:
ایمرجنسی میں موبائل فون ایک خاموش مددگار کی صورت سامنے آتا ہے، جو لمحوں میں زندگی بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کسی مریض کو دوا کی فوری ضرورت ہو، یا کسی حادثے کی اطلاع دینی ہو، موبائل کی مدد سے زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
4. معاشی و تجارتی سہولتیں:
آن لائن کاروبار، بینکنگ، خرید و فروخت، ملازمت کی تلاش، اور بین الاقوامی تجارتی روابط – یہ سب آج موبائل فون کی وجہ سے نہایت آسان ہو چکے ہیں۔
5. مذہبی و روحانی فائدے:
اگر کوئی چاہے تو موبائل اسے اللہ کی یاد سے جوڑنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت، احادیثِ مبارکہ، سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم، وظائف، اور اذان کی آواز – سب موبائل پر موجود ہیں۔
موبائل فون کے نقصانات
جہاں روشنی ہوتی ہے، وہاں سایہ بھی جنم لیتا ہے۔ جہاں سہولتیں ہوتی ہیں، وہاں آزمائشیں بھی سر اٹھاتی ہیں۔ موبائل جہاں ایک نعمت سا ہے، وہیں اگر اس کا استعمال بے لگام ہو جائے تو یہ انسانی فکر، اخلاق، اور روحانیت کو چاٹ جانے والا زہر بھی بن سکتا ہے۔
1. وقت کا خوں آشام درندہ: موبائل وہ چور ہے جو ہمارے قیمتی اوقات کو لمحہ لمحہ چرا لیتا ہے۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، فضول گیمز، اور نہ ختم ہونے والی اسکرولنگ نے ایک پوری نسل کو بیکار اور بے عمل بنا دیا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر موبائل کی فتنہ سامانیوں پر کتنا صادق آتا ہے:
"کیا بتاؤں تم کو اے اہلِ وطن! وقت گزرتا ہے تماشوں میں یہاں"
2. علم سے غفلت:
تعلیم و تدریس کا میدان آج موبائل کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے۔ وہ طلبہ جو کتابوں سے عشق رکھتے تھے، آج ریلس، میمز اور گیمز کے اسیر بن چکے ہیں۔ علم ایک ارتکاز مانگتا ہے، مگر موبائل کی دنیا منتشر خیالی کو فروغ دیتی ہے۔ آج کا طالب علم بظاہر مصروف نظر آتا ہے، مگر درحقیقت وہ اپنی صلاحیتوں کو خود ضائع کر رہا ہے۔
3. اخلاقی تباہی: موبائل نے فحاشی و عریانی کو گھر کی دہلیز تک لا کھڑا کیا ہے۔ فحش ویڈیوز، بے حیائی کا مواد، اور اخلاق شکن مواد صرف ایک ٹچ پر دستیاب ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو روحانی موت کو جنم دیتا ہے۔
4. صحت کی بربادی: طبی ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ موبائل کا بے حد استعمال نیند کی کمی، دماغی الجھن، آنکھوں کی کمزوری، اور اعصابی تناؤ جیسے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ بچے اور نوجوان ان خطرات سے لاعلم ہو کر گھنٹوں اسکرین پر آنکھیں گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔
5. خاندانی نظام کی تباہی: موبائل نے انسان کو اس حد تک خودغرض بنا دیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، اور بھائی بہنوں سے کٹ چکا ہے۔ آج خاندان کے افراد ایک ہی کمرے میں ہوتے ہیں، مگر ہر کوئی موبائل میں مگن، تنہا اور اجنبی ہوتا ہے۔ یہ ایک خاموش طلاق ہے – محبت، گفتگو، اور تعلق کی طلاق!
اسلامی رہنمائی اور فکری پہلو
اسلام اعتدال کا مذہب ہے – نہ ضرورت سے زیادہ، نہ حد سے کم۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه"
ترجمہ: "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔"
(ترمذی، حدیث 2317)
اگر موبائل کا استعمال تعلیم، اصلاح، ذکر و فکر، اور نفعِ عامہ کے لیے ہو، تو وہ عبادت بن سکتا ہے۔ اور اگر وہ وقت ضائع کرنے، بے حیائی پھیلانے، یا لوگوں کو اذیت دینے کے لیے ہو تو وہ گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے۔
نتیجہ:
ایک متوازن فکر کی ضرورت یہ ایک ذریعہ ہے خیر یا شر کا، فلاح یا فساد کا، نجات یا ہلاکت کا۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس آلے کو کس طرف لے جاتے ہیں۔ لہٰذا آج کا دانش مند انسان وہی ہے جو موبائل کو وقت پر استعمال کرے، ضرورت سے زیادہ نہیں؛ اس سے علم، دین، اور اصلاحی فوائد سمیٹے؛ اور اس کے نقصانات سے خود کو اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکھے۔