مزید اپڈیٹس کا کام جاری ہے! اپنے مشورے دیجیے ہم سے رابطہ کریں!

تاج الشریعہ اور یاد مدینہ از مولانا عمران رضا مدنی بنارسی

تاج الشریعہ اور یاد مدینہ از مولانا عمران رضا مدنی بنارسی مولانا عمران رضا عطاری مدنی بنارسی,مضمون نگاری,حضور تاج الشریعہ,
Bu mohammadraza
تاج الشریعہ اور یاد مدینہ از مولانا عمران رضا مدنی بنارسی مولانا عمران رضا عطاری مدنی بنارسی,مضمون نگاری,حضور تاج الشریعہ,

تاجُ الشریعہ اور یادِ مدینہ

مولف: مولانا عمران رضا مدنی بنارسی
نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کو حضور ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز سے محبت ہوتی ہے۔ حضرت تاجُ الشریعہ نہ صرف عاشقِ رسول بلکہ عاشقِ رسول بنانے والے تھے، آپ سے وابستہ ہو کر ہزاروں کے دل عشقِ رسول سے سرشار ہو گئے۔ چونکہ شہرِ مصطفیٰ مدینۂ منورہ کو خاص نسبت ہے نبی اکرم ﷺ سے، خود ہمارے آقا ﷺ مدینۂ منورہ  سے حد درجہ محبت فرمایا کرتے تھے، تو عاشقانِ رسول بھی مدینۂ منورہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اس جہت سے حضور تاجُ الشریعہ کی ذات کو دیکھیں تو آپ کو بھی مدینۂ منورہ سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ صرف آپ کے نعتیہ دیوان "سفینۂ بخشش" کو دیکھیں تو معلوم ہو کہ جگہ بہ جگہ محبتِ مدینہ پر اشعار یہ بتا رہے ہیں کہ آپ کو عشقِ مدینہ کس قدر حاصل تھا۔

فراقِ مدینہ میں آپ فرماتے ہیں:

فرقتِ طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینے کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے
دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے
راہِ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے
میرے دن پھر جائیں یا رب شب وہ آئے خیر سے
دل میں جب ماہِ مدینہ گھر بنائے خیر سے
جب عاشقِ رسول مدینے جاتا ہے تو اس وقت جو اس کی کیفیت ہوتی ہے، وہ ان اشعار میں بیان فرمائی:

سنبھل جا اے دلِ مضطر مدینہ آنے والا ہے
لُٹا اے چشمِ تر گوہر، مدینہ آنے والا ہے
قدم بن جائے میرا سر، مدینہ آنے والا ہے
بچھوں رہ میں نظر بن کر، مدینہ آنے والا ہے

یوں تو حضور تاجُ الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ نے اُردو اور عربی میں کئی کلام لکھے ہیں، مگر جو یادِ مدینہ میں تڑپا دینے والا کلام آپ نے لکھا، وہ ایسا ہے کہ جس کو پڑھنے اور سننے والا اشک بار اور یادِ مدینہ میں بے قرار ہو جاتا ہے، دل میں ہجر و فراق کا سمندر موجزن ہو جاتا ہے، جس کا پہلا شعر ہے:

داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا
کاش گنبدِ خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا

جب حضور تاجُ الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ زیارتِ مدینہ کے لیے پہنچے تو وہاں کی ظالم حکومت (سعودیہ) نے آپ کو بغیر زیارت کے واپس بھیج دیا۔ ہجر و فراق سے ٹوٹا ہوا دل لے کر جب ہند لوٹے، دل بے قرار تھا، آنکھیں اشک بار تھیں، ایک محب کو اس کے محبوب کے پاس جانے نہیں دیا گیا۔ ایسی اضطراب کی کیفیت میں آپ نے یہ نعت لکھی:

داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا
کاش گنبدِ خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا
دم مرا نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا
میرے دل سے دھل جاتا داغِ فرقتِ طیبہ
طیبہ میں فنا ہو کر طیبہ ہی میں مل جاتا
موت لے کے آ جاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا
خلد زارِ طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا، آگے آگے دل جاتا
دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی
اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا
فرقتِ مدینہ نے وہ دیے مجھے صدمے
کوہ پر اگر پڑتے، کوہ بھی تو ہل جاتا
دل مرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزاروں میں
ان کے نقشِ پا سے یوں مل کے مستقل جاتا
دل پہ وہ قدم رکھتے، نقشِ پا یہ دل بنتا
یا تو خاکِ پا بن کر پا سے متصل جاتا
وہ خرام فرماتے میرے دیدہ و دل پر
دیدہ میں فدا کرتا، صدقے میرا دل جاتا
چشمِ تر وہاں بہتی، دل کا مدعا کہتی
آہ با ادب رہتی، منہ میرا سِل جاتا
در پہ دل جھکا ہوتا، اذن پا کے پھر بڑھتا
ہر گناہ یاد آتا، دل خجل خجل جاتا
میرے دل میں بس جاتا جلوہ زارِ طیبہ کا
داغِ فرقتِ طیبہ پھول بن کے کھل جاتا
ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائلِ درِ اقدس کیسے منفعل جاتا

مدینے میں مرنے کی خواہش

دنیا کا کوئی ایسا شہر نہیں جہاں مرنے کی اس قدر فضیلت بیان کی گئی ہو، جہاں مرنے کو جی چاہتا ہو، مگر مدینہ وہ شہر ہے جہاں مرنے کے لیے عشاق تڑپتے ہیں۔ دنیا کے قبرستانوں میں جانے سے دل گھبراتا ہے، مگر جنت البقیع میں کوئی وحشت نہیں ہوتی کیونکہ یہ عین حضور ﷺ کے قدمینِ شریفین میں واقع ہے۔
نبی اکرم نورِ مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا؛ فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ مَاتَ بِهَا"
ترجمہ: تم میں سے جس سے ہو سکے وہ مدینے میں مرے، کیونکہ میں مدینۂ منورہ میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔

(المصنف، ج: 6، ص: 405، الحدیث: 32421)

علماء کے اقوال

علامہ سُمہودی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث پاک میں ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو مدینۂ منورہ میں رہتے ہیں کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا، کیونکہ شفاعتِ مصطفیٰ ﷺ صرف مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔
علامہ ابن امیر الحاج رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مدینۂ منورہ کو خاص طور پر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مدینۂ منورہ، مکۃ المکرمہ سے افضل ہے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ، ج: 2، ص: 173)
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت شارحِ مشکوٰۃ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ظاہر یہ ہے کہ یہ بشارت اور ہدایت سارے مسلمانوں کو ہے، نہ کہ صرف مہاجرین کو۔ یعنی جس مسلمان کی نیت مدینۂ پاک میں مرنے کی ہو، وہ کوشش بھی کرے کہ وہیں مرے۔ اللہ نصیب کرے تو وہیں قیام کرے، خصوصاً بڑھاپے میں، اور بلا ضرورت مدینۂ پاک سے باہر نہ جائے تاکہ موت و دفن وہیں نصیب ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے کہ: 'مولیٰ! مجھے اپنے محبوب کے شہر میں شہادت کی موت دے۔' آپ کی دعا ایسی قبول ہوئی کہ سبحان اللہ! فجر کی نماز، مسجدِ نبوی، مِحرابِ نبی، مصلّیٰٔ نبی اور وہیں شہادت!
میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ تیس چالیس سال سے مدینۂ منورہ میں ہیں، حدودِ مدینہ بلکہ شہرِ مدینہ سے بھی باہر نہیں جاتے، اسی خطرہ سے کہ موت باہر نہ آجائے۔ حضرت امام مالک کا بھی یہی دستور رہا۔
یہاں شفاعت سے مراد "خصوصی شفاعت" ہے: گنہگاروں کے سارے گناہ بخشوانے کی شفاعت، اور نیک کاروں کے بہت درجے بلند کرنے کی شفاعت۔ ورنہ حضورِ انور ﷺ اپنی ساری ہی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔
خیال رہے کہ مدینۂ پاک میں رہنا بھی افضل، وہاں مرنا بھی اعلیٰ، اور وہاں دفن ہونا بھی بہتر ہے۔ بعض صحابہ بعدِ موت مدینہ میں لا کر دفن کیے گئے۔
اس سے اشارتاً معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدینۂ پاک میں مرے، دفن ہونے کی کوشش کرے، وہ ان شاء اللہ ایمان پر مرے گا، کیونکہ اس کے لیے شفاعتِ خاص کا وعدہ ہے، اور شفاعت صرف مؤمن کی ہوسکتی ہے۔"

(مرآۃ المناجیح، ج:4، حدیث نمبر: 2750)

مذکورہ حدیث اور اس کی شرح کے بعد حضور تاج الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ کے کلام کو دیکھیں! فرماتے ہیں:
موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی سے مل جاتا
یوں تو جیتا ہوں حکمِ خدا سے، مگر
میرے دل کی ہے ان کو یقیناً خبر
حاصلِ زندگی ہوگا وہ دن مرا
ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائے گا
ان اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ حضور تاج الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ کاش مجھے شہرِ مصطفیٰ، مدینۂ منورہ میں موت نصیب ہو، اور وہاں مرنے کی فضیلت کا مستحق بنوں۔
اپنے نعتیہ دیوان "سفینۂ بخشش" میں فرماتے ہیں:
دور اے دل رہیں مدینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے
ان سے میرا سلام کہہ دینا
جا کے تو اے صبا، قرینے سے
حضور تاج الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ کی یہ کیفیت شدید محبت، وارفتگی اور مدینۂ طیبہ کی تڑپ پر مبنی ہے۔ یہ اشعار ایک عاشقِ صادق کے دل کا حال ہیں، جس کے لیے مدینہ کی جدائی موت سے بدتر ہے، اور جو دور رہ کر بھی ادب و عشق کے تقاضے پوری شدت سے نبھانا چاہتا ہے۔
گویا آپ کہہ رہے ہیں: مدینۂ منورہ سے دُور رہ کر جینا ایسا ناقابلِ برداشت ہے کہ اس سے موت بہتر ہے۔ اس میں عاشقانہ جذبات کی شدت اور مدینہ کی محبت کا کمال نظر آتا ہے۔
پھر یہاں شاعر، ہوا "صبا" (مخصوص ہوا) سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ: اگر تُو مدینہ جائے تو ادب و احترام سے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام عرض کر دینا۔ "قرینے سے" کہہ کر آپ نے ادبِ نبوی کا بہترین انداز اختیار کیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
Oops!
It seems there is something wrong with your internet connection. Please connect to the internet and start browsing again.
AdBlock Detected!
We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.
Site is Blocked
Sorry! This site is not available in your country.
NextGen Digital واٹس ایپ چیٹ پر آپ کو خوش آمدید
السلام علیکم ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہئں؟?
Type here...