سیرتِ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ
دنیا میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جو اپنے تعارف میں کسی کے محتاج نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی ذات، نام اور کام ہی ان کی پہچان و تعارف بن جاتا ہے۔ انہی شخصیات میں ایک شخصیت وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، جانشینِ حضور مفتی اعظم ہند، قاضی القضاۃ فی الہند، حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ آپ وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، حضور حجۃ الاسلام کے مظہر، حضور مفتی اعظم ہند کے سچے جانشین اور مفسرِ اعظم ہند کے لختِ جگر ہیں۔ ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں جھلک رہا ہے۔ اب ہم آپ علیہ الرحمہ کی سیرت مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت با سعادت کاشانۂ رضا، محلہ سوداگران، بریلی میں 14 ذی القعدہ 1361ھ مطابق 23 نومبر 1942ء، بروز منگل ہوئی۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد 1، ص 28)
اسمِ گرامی
آپ حضرت مفسرِ اعظم ہند، حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ دستورِ خاندان کے مطابق، آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا۔ چونکہ والدِ ماجد کا نام محمد ابراہیم رضا ہے، اس نسبت سے آپ کا نام اسماعیل رضا تجویز ہوا۔ عرفی نام اختر رضا ہے، اور اسی نام سے مشہور ہیں۔ اختر آپ کا تخلص ہے۔ (ایضاً، ص 28)
شجرۂ نسب
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نسباً پٹھان، مسلکاً حنفی، مشرباً قادری ہیں، اور آپ کا مولد بریلی ہے۔ حضور سعید اللہ خان علیہ الرحمہ تک آپ کا نسب کچھ یوں ہے:
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے 5 بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔ دو بھائی آپ سے بڑے ہیں: حضور ریحانِ ملت مولانا ریحان رضا قادری علیہ الرحمہ اور مخدوم تنویر رضا قادری (جو جذبی کیفیت میں غرق رہتے تھے اور مفقود الخبر ہو گئے)۔ جبکہ دو بھائی آپ سے چھوٹے ہیں: مولانا ڈاکٹر قمر رضا قادری اور علامہ منان رضا خان قادری (عرف "منانی میاں")۔
تعلیم و تربیت
جب حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف چار سال، چار ماہ اور چار دن ہوئی، تو آپ کے والدِ ماجد حضور مفسرِ اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خان جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریبِ بسم اللہ خوانی منعقد کی۔ اس تقریبِ سعید میں یادگارِ اعلیٰ حضرت، دارالعلوم منظرِ اسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ بسم اللہ خوانی نانا جان، سرکارِ مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے ادا کرائی۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے "ناظرہ قرآنِ کریم" اپنی والدہ ماجدہ (شہزادیِ مفتی اعظم ہند) سے گھر پر ہی ختم کیا۔ والدہ ماجدہ سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والدِ بزرگوار نے دارالعلوم منظرِ اسلام میں داخلہ کرا دیا۔ درسِ نظامی کی تکمیل آپ نے منظرِ اسلام سے کی۔
قوتِ حافظہ
کتابوں سے محبت
اساتذۂ کرام
آپ کے اساتذہ میں قابلِ ذکر اساتذۂ کرام یہ ہیں:
- حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ
- بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری
- مفسرِ اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی
- فضیلۃ الشیخ مولانا علامہ محمد سماحی (شیخ الحدیث والتفسیر، جامعہ ازہر، قاہرہ)
- حضرت علامہ مولانا محمود عبد الغفار (استاذ الحدیث، جامعہ ازہر، قاہرہ)
- ریحانِ ملت مولانا ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی
- استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد (عرف جہانگیر خان رضوی اعظمی)(ایضاً، ص 150)
تدریس
تلامذہ
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے علم و فضل سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ البتہ، آپ علیہ الرحمہ سے براہِ راست اور باقاعدہ شرفِ تلمذ پانے والوں میں سے چند حضرات کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں:
- حضرت علامہ مولانا منان رضا (منانی میاں)
- مفتی محمد ناظم علی بارہ بنکوی (مرکزی دار الافتاء، بریلی)
- مفتی سید شاہد علی رامپوری (جامعہ اسلامیہ، رامپور)
- مفتی محمد بشیر الدین رضوی دینا جپوری
- مفتی محمد انور علی بہرائچی (مدرس، منظر اسلام، بریلی)
- مفتی محمد ایوب عالم رضوی
- مولانا کمال احمد خان رضوی نانپاروی
- مولانا جمیل احمد خان نوری بستوی (ریسرچ اسکالر، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
- مولانا مظفر حسین رضوی (سابق مدرس، جامعہ نوریہ رضویہ، بریلی)
- مولانا ذوالفقار احمد خان نوری رامپوری (ایڈیٹر، ماہنامہ سنی دنیا، بریلی)وغیرہ وغیرہ۔(تجلیات تاج الشریعہ، ص 624)
شادی خانہ آبادی
بیعت و خلافت
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکارِ مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل ہے۔ سرکارِ مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے بچپن ہی میں آپ کو بیعت کا شرف عطا فرمایا تھا، اور صرف 19 سال کی عمر میں 15 جنوری 1962ء (1381ھ) کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔
علاوہ ازیں، آپ کو خلیفۂ اعلیٰ حضرت، برہانِ ملت، حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللہ علیہ، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی رحمۃ اللہ علیہ، احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی رحمۃ اللہ علیہ، اور والدِ ماجد، مفسرِ اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔
خلفائے کرام
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دنیا بھر میں متعدد خلفاء و مجازین موجود ہیں۔ ان سب کا ذکر اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں، البتہ چند حضرات کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں:
- علامہ محمد عبد الحکیم اختر شاہجہانپوری
- مفتی سید شاہد علی رضوی
- مولانا حنیف القادری (نیپال)
- مفتی محمد مظفر حسین رضوی (نائب مفتی، مرکزی دار الافتاء، بریلی)
- شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف خان رضوی
- مفتی قمر الحسن قادری (امریکہ)
- شیخ محمد عمر سلیم حنفی (عراق)
- پیر اجمل رضا قادری صاحب
- الحاج محمد سعید نوری (چیئرمین، رضا اکیڈمی، ممبئی)
- مفتی محمد یونس رضا (وائس پرنسپل، جامعۃ الرضا، متھرا پور، بریلی)
- علامہ انور علی رضوی (شیخ الادب، منظر اسلام، بریلی)
- مفتی محمد اختر حسین قادری رضوی (خلیل آباد)
- صاحبزادہ مولانا محمد عسجد رضا خان صاحبوغیرہ وغیرہ۔(تجلیات تاج الشریعہ، ص 619)
بارگاہِ مرشد میں مقام
مسندِ افتاء
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جب جامعہ ازہر سے تشریف لائے، تو درس کے ساتھ افتا نویسی کا بھی آغاز کیا۔ چنانچہ 1966ء ہی میں ایک استفتا کا شاندار جواب لکھا۔ یہ استفتا مرکزِ اسلام، مدینۃ المنورہ سے آیا تھا، جو طلاق، نکاح، میراث پر مشتمل تھا۔ جواب لکھنے کے بعد، حضرت نے پہلے بحر العلوم حضرت مفتی سید افضل حسین مونگیری صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے دیکھنے کے بعد تحسین کی اور کہا: "مولانا! اسے اپنے نانا جان (مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ) کو دکھائیں۔"
خطابت کی خصوصیت
حضرت کا خطاب تین زبانوں میں ہوتا ہے:
- ہند، پاک و بنگلہ دیش میں اردو میں،
- عرب ممالک میں عربی میں،
- یورپ میں انگلش میں۔
حضرت کے سیکڑوں خطبات ٹیپ ہیں۔ یوٹیوب (YouTube) پر بھی بعض خطبات لوڈ ہیں۔ حضرت کا اندازِ بیان سادگی اور شائستگی لیے ہوتا ہے۔ اسلوب عمدہ ہوتا ہے۔ درمیانِ خطابت جو شیلا رنگ بھی آتا ہے، جس سے مجمع بیدار اور مستعدی کے ساتھ دل کے کان سے سننے لگتا ہے۔
حضرت سب سے پہلے عربی میں خطبہ پڑھتے ہیں، پھر آیتِ شریف کی تلاوت۔ اس کے بعد، موضوع کی مناسبت سے عربی، انگلش، اردو یا فارسی میں اشعار پڑھتے ہیں۔ پھر اقوالِ ائمہ، احادیثِ کریمہ اور آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں تلاوت کردہ آیتِ مقدسہ پر حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں ایمان افروز بیان کرتے ہیں۔
علوم و فنون میں مہارت
جانشینِ مفتی اعظم، حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو مختلف اور متعدد علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی۔ ان میں سے چند علوم و فنون کے نام حسبِ ذیل ہیں:
- علومِ قرآن
- اصولِ تفسیر
- علمِ حدیث
- اصولِ حدیث
- اسماء الرجال
- فقہِ حنفی
- فقہِ مذاہبِ اربعہ
- اصولِ فقہ
- علمِ کلام
- علمِ صرف
- علمِ نحو
- علمِ معانی
- علمِ بدیع
- علمِ بیان
- علمِ منطق
- علمِ فلسفہ قدیم و جدید
- علمِ مناظرہ
- علمِ الحساب
- علمِ ہندسہ
- علمِ ہیئت
- علمِ تاریخ
- علمِ مربعات
- علمِ عروض و قوافی
- علمِ تکسیر
- علمِ جفر
- علمِ فرائض
- علمِ توقیت
- علمِ تقویم
- علمِ تجوید و قراءت
- علمِ ادب (نظم و نثر عربی، نظم و نثر فارسی، نظم و نثر انگریزی، نثر ہندی، نظم و نثر اردو)
- علمِ زیجات
- علمِ خطاطی
- علمِ جبر و مقابلہ
- علمِ تصوف
- علمِ سلوک
- علمِ اخلاق۔(ایضاً، ص 37)
تصنیفات
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے کئی مختلف علوم و فنون پر متعدد کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام حسبِ ذیل ہیں:
- شرح حدیثِ نیت
- ہجرتِ رسول
- آثارِ قیامت
- سنو چپ رہو
- ٹائی کا مسئلہ
- تین طلاقوں کا شرعی حکم
- تصویروں کا حکم
- دفاعِ کنز الایمان (2 جز)
- الحق المبین
- القول الفائق بحکم اقتداء الفاسق
- فتاویٰ تاج الشریعہ
- الصحابۃ نجوم الہدایۃ
- مرآۃ النجدیۃ بجواب البریلویۃ
- کیا دین کی مہم پوری ہو چکی؟
- حاشیۃ الازہری علی صحیح البخاریوغیرہ وغیرہ۔(سوانح تاج الشریعہ، ص 100)
ہم نے صرف چند کتابوں کے نام ذکر تحریر فرمائے ہیں۔ آپ اگر کتابوں کی مکمل فہرست دیکھنا چاہتے ہیں، تو "سوانح تاج الشریعہ" وغیرہ کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
آپ کے متعلق علماء کرام کے تاثرات
مفتی اعظم راجستھان، حضرت علامہ مفتی اشفاق حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
علمِ فقہ میں وسیع پیمانے پر مطالعہ
قطبِ مدینہ، علامہ مفتی ضیاء الدین مدنی فرماتے ہیں:
حضور شارحِ بخاری، مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں:
علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب فرماتے ہیں:
"اس خاندان (رضا) کے علمی کمال کا ایک جہاں کو اعتراف ہے۔ بالخصوص جامعِ معقول و منقول، صاحبِ تحقیق و تدقیق، منبعِ رشد و ہدایت، امام العصر، شیخ الاسلام، حضرت مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت علوم و معارفِ رضا کے لیے ایک آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے، اور علم و عمل کے لحاظ سے معیاری گردانی جاتی ہے۔ آپ کو متعدد زبانوں پر دسترس حاصل ہے، اس لیے آپ کی تبلیغی کاوشوں پر بڑے دور رس نتائج و فوائد مرتب ہوئے ہیں۔"
وصال
علم و ادب کا یہ روشن و تابناک آفتاب 6 ذوالقعدۃ الحرام 1439ھ (بمطابق 20 جولائی 2018ء)، بروز جمعۃ المبارک، مغرب کے وقت غروب ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے، اور ہمیں ان کی پیروی کرنے کی توفیق دے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے۔ آمین!