بدمذھب کی تقریر سننا باعث خطرۂ ایمان / عمران رضا عطاری بنارسی بدمذھب کا بیان سننے کی نحوست /


بدمذھب کی تقریر سننا باعث خطرۂ ایمان / عمران رضا عطاری بنارسی بدمذھب کا بیان سننے کی نحوست /



*بـد مذہبوں کی تـقـریریں سننا باعثِ خـطـرۂ ایـمـان*

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

✍🏻 عـمـران رضا عطاری مـدنـی

تخصص فی الحدیث (ناگپور)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہر چیز حاصل اس فن کے ماہر سے لے جاتی ہے مثلاً دوا لینا ہے تو ڈاکٹر یا طبیب کے پاس جانا ہوگا، اگر کوئی دوا لینے کے لیے انجینئر کے پاس جائے تو ظاہری بات ہے اس کو وہاں صحیح دوا نہیں ملی گی، اسی طرح اگر کوئی سبزی خریدنے کسی ہسپتال یا فیکٹری میں جائے تو وہاں اسے سبزی نہیں ملے گی۔ نتیجہ یہی نکلے جو جس فن کا ماہر ہے اس سے وہی چیز حاصل کی جائے گی۔ فی زمانہ ہمارے معاشرے میں یہ بلا بڑی تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے کہ لوگ علم دین عالم دین سے یا مفتی اسلام سے سیکھینے کے بجائے ، لیکچرار ، پروفیسر ، ڈاکٹر کا انتخاب کرتے ہیں حالاں کہ ان کو علم دین کی کما حقہ سوجھ بوجھ بھی نہیں ۔ 

آج کل سوشل میڈیا کی صورت میں فیسبک ہو یا انسٹاگرام یا کوئی بھی ذریعہ لوگ کسی سے بھی دینی مسائل سننا شروع کردیتے ہیں اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کہ مسئلہ بتانے والا سنی صحیح العقیدہ مسلمان بھی ہے یا نہیں ؟ 

اس ضمن میں بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سنو سب کی کرو اپنی ! اسی وجہ سے ان سے کبھی کفریہ جملے تو کبھی گستاخانہ جملے کا صدور ہوتا نظر آتا ہے لہذا خود معیار بنانے کے بجائے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ جو اصول، قرآن و حدیث اور ائمہ دین نے مقرر فرمایا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ 

 مشہور تابعی حضرت محمد بن سیرین  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

إنَّ هَذا العِلْمَ دِينٌ فانْظُرُوا عَمَّن تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ. 

یہ علم؛ دین ہے، ذرا غور کرلینا کہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو!!! 

(الشمائل المحمدية، ص:٣٥٥، المكتبة التجارية)


معلوم ہوا کہ ہمیں شوشل میڈیا سے یا ڈائریکٹ کسی سے، علم حاصل کرنے سے پہلے غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ سنی ہے یا نہیں ۔ کہیں ان کے عقائد میں خرافات تو نہیں ؟ کہیں یہ نبی اکرم ﷺ کے گستاخ ، صحابہ کرام پر بھوکنے والے تو نہیں ؟ 

نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل آیت کریمہ 

 ﴿إن الذين فرقوا دينهم وكانوا شيعًا لست منهم في شيء﴾ (وہ جنہوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہوگئے اے محبوب تمہیں ان سے کچھ علا قہ نہیں ) کے متعلق ارشاد فرمایا : 

جن کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اہل بدعت ، اسلام پر شہبات ڈالنے والے ، اور اس امت کے گمراہ لوگ ہیں 

(تفسير الطبري،ج:١٢، ص:٢٧١، مؤسسة الرسالة)

 *اقــوالِ بزرگانِ دین* 

● حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 

جس نے کسی بدعتی (بد مذہب) کی بات سننے کا لیے کان دھرا وہ اللہ کی عصمت (حفاظت) سے نکل گیا 


● عبد الرحمن حنبلی صالحی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بزرگانِ دین نے فرمایا کہ بد مذہبوں سے علم حاصل نہ کیا جائے۔ 

(الكنز الأكبر، ص٤٣٥، دار الكتب العلمية - بيروت)


● بعض بد مذہبوں نے حضرت ابو عمران نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا مجھ سے ایک کلمہ سن لیجیے! آپ نے ان سے اعراض کرتے ہوئے فرمایا : آدھا کلمہ بھی نہیں سنوں گا۔ 


● حضرت عمرو بن قیس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کسی ٹیڑھے دل والے (بد مذہب) کے پاس نہ بیٹھو ورنہ تمھارا دل بھی ٹیڑھا ہو جائے گا۔ 

(حسن التنبه لما ورد في التشبه، ج:۹، ص:۳۲۲، دار النوادر، سوريا)


● بزرگانِ دین نے بد مذہبوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ، ان کی کتابیں دیکھنے اور ان کی باتیں سننے سے منع فرمایا ہے۔ 

(الآداب الشرعية والمنح المرعية، ج:١، ص:٢٥٢، عالم الکتب)


● امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 

مسلمانوں کو ایسے شخص کا وعظ سننا اور اسے وعظ کی مسند پر بٹھانا حرام ہے۔

(فتاوی رضویہ، ج:۱۴، ص:۳۳۱)


● حضرت حبیب ابو زبرقان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کسی بدمذہب سے کوئی بات سنی تو اپنے کانوں میں انگلی ڈال لی پھر فرمایا : میرے لیے اس سے کلام کرنا جائز نہیں ۔ پھر وہ اس مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔ 

(الإبانة الكبرى، ج:٢، ص:٤٧٣، دار الراية، الرياض)


● امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 

جس نے کسی گمراہ شخص سے کچھ سنا اللہ پاک اس سے کچھ نفع نہیں پہنچائے گا۔

(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، ج:١، ص:١٣٨، مكتبة المعارف - الرياض)


ہم میں سے ہر ایک غور کرے کہ کہیں ہم کسی بد مذہب ، کسی گستاخ رسول کی تقریر ، بیانات ، وعظ وغیرہ تو نہیں سنتے ؟ اگر سنتے ہیں تو فوراً توبہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی کوئی بات دل پر شیطانی اثر کر جائے اور ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ 

تقریر و بیانات صرف سنی صحیح العقیدہ عالم دین و مفتی شرع متین سے ہی سنیں ! 



مولانا فیضان سرور مصباحی لکھتے ہیں : 

حضرت مفتی وسیم اکرم مصباحی اڈیشوی  ایک بار گفتگو کے دوران فرمانے لگے کہ 

لوگ کہتے « انظروا ماقال، لاتنظروا من قال » ـ یعنی : کیا کہا یہ دیکھو، کس نے کہا یہ مت دیکھو ۔ 

جب کہ اس باب میں درست یہ ہونا چاہیے کہ : «انظروا من قال ، ثم انظروا ماقال » ـ یعنی : پہلے یہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے؟ خوش عقیدہ ہے کہ نہیں ۔ پھر یہ دیکھو کہ وہ کیا کہ رہا ہے ۔ 

 ـــــــ 

میرے عزیز ! 

اپنے دماغ کو کوڑے دان نہ بنائیں، کہ جس کے جی میں جو آئے دین کے نام پر اس میں ڈالتا پھرے، بلکہ صرف اور صرف خوش عقیدہ علمائے ۱ہل سنت سے دین لینے کی کوشش کیجیے ۔ اور ان کی رہنمائی میں دینی مواد کو اپنے دل ودماغ میں جگہ دیجیے ۔ 


جو لوگ نبی کریم ﷺ کی گستاخی کی بنا پر کافر و مرتد قرار پائے ان کے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 

مسلمانوں کو اس سے میل جول حرام ہے، اس سے سلام و کلام حرام اس کے پاس بیٹھنا حرام ،اسے اپنے پاس بیٹھنے دینا حرام ، بیمار پڑے تو اسے پوچھنے جانا حرام، مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل و کفن دینا حرام، اس کے جنازہ پر نماز حرام، اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنا حرام، اس کی قبر پر جانا حرام۔

(فتاوی رضویہ ، ج:۱۴، ص:۳۷۸)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Sports

Responsive Ad