از قلم:- محمد اویس رضا عطاری
قاتلانِ_حسین_شیعہ_ہیں
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ”اصل قاتل خود شیعہ “ تھے اور شیعوں نے ہی آپ کو دھوکے سے خطوط لکھ کر کوفہ میں بلایا، اور اس پر ہم بطورِ دلائل شیعہ مذھب کی معتبر کتب سے امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو لکھے جانے والے شیعہ کے خطوط بھی پیش کریں گے۔ اور پھر شیعہ کی ہی معتبر ترین کتب سے اھلبیت کی زبانی یہ ثبوت پیش کریں گے کہ امامِ حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے قاتل شیعہ ہیں
#حوالہ_نمبر1: مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتا ہے :
”کثرت خطوط اہل کوفہ : یہ خط عبد اللہ بن مسمع ہمانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور اسرار کیا کہ یہ خط بہت جلد خدمت امام میں پہنچا دینا پس یہ دونوں قاصد دسویں ماہ مبارک رمضان کو میں داخل مکہ ہوئے اور نامہ اہل کوفہ خدمت امام حسین ؑ میں پہنچادیا ان دونوں قاصدوں کی روانگی کے بعد دو روز پھر اہل کوفہ نے قیس بن مسہرہ ،عبد اللہ بن شداد عمارہ بن عبد اللہ ڈیڑھ سو خطو ط جو اہل کوفہ نے لکھے تھے دیکر بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور پھر دو روز کے بعد تین چار بلکہ زیادہ لوگوں نے ایک خط لکھا اور ہمدست بانی بن بانی سبعی و سعید بن عبد اللہ حنفی بخدمت آنحضرت روانہ کیا اور خط میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ عریضہ شیعوں اور ذرویوں و مخلصوں کی طرف سے امام حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب“۔
[جلاءالعیون ،جلد2،صفحہ189، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_2:
”بارہ ہزار خطوط اہل کوفہ سے آگئے حضرت نے ان کے آخری خط کے جواب میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط حسین ؑ بن علی کا شیعوں مومنوں مسلمانوں اہل کوفہ کی طرف “۔
[جلا ءالعیون ،صفحہ190،جلد2، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
ان دونوں حوالوں میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ ہزاروں خطوط ”اہل کوفہ “ اور ”شیعوں“ کی طرف سے لکھے گئے تھے شیعہ کی صراحت خود شیعہ کی طرف سے کئے جانے کے بعد مزید تفصیل کی ضرورت نہیں مگر ہم مزید اتمام حجت کیلئے یہاں ایک حوالہ نقل کردیتے ہیں کہ شیعہ کے ہاں ”اہل کوفہ “ سے کون لوگ مراد ہوتے ہیں ؟
#حوالہ_نمبر3:
قاضی نور اللہ شوستری لکھتا ہے :
”تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد و سنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل ومحتاج دلیل است اگرچہ ابو حنیفہ کوفی است“ـ
”اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کیلئے کسی دلیل کی حاجت نہیں کوفیوں کا سنی ہونا خلاف اصل ہے جو محتاجِ دلیل ہے اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے۔“
[مجالس المومنین ،صفحہ25، مجلسِ اول]
پس جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اہل کوفہ سب کے سب شیعہ تھے اور ان کے خطو ط میں ان کے شیعہ ہونے کی بھی وضاحت ہے تومعلوم ہواکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلانے والے یہی شیعہ تھے۔
مقتل ابی مخنف میں بھی تفصیل کے ساتھ انہی شیعی کوفیوں کے خطوط کا ذکر ہے۔ [ملاحظہ ہو مقتل ابی مخنف صفحہ16تا57 مطبوعہ محمد علی بک ایجنسی] اب بلائے جانے کے بعد انہی شیعوں نے اہل بیت اور امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے ساتھ کیا کیا ملاحظہ ہو:
#حوالہ_نمبر4:
”امام حسین نے اولا مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر کوفہ روانہ کیا تو اس وقت اٹھارہ ہزار شیعہ مسلم بن عقیل کے گردجمع ہوگئے اور مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر امام حسین ؓ کی بیعت کی۔“
[جلا ءالعیون ،جلد2،صفحہ193 ، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_5:
امام حسین کو خط لکھنے والے مرکزی شیعہ ہانی بن ہانی تھے مسلم بن عقیل ان ہی کے گھر ٹھرے اور کئی ہزار شیعوں سے بیعت کی مگر جب ابن زیاد کو اس کی خبر ہوئی اور ہانی کو طلب کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر حکم ہو تو مسلم بن عقیل کو ابھی گھر سے نکال دوں یہ بھی یاد رہے کہ اسی ہانی کی مکاری کی وجہ سے ابن زیاد مسلم بن عقیل کے ہاتھوں ان کے گھر میں قتل نہ ہوسکا
[جلاءالعیون ملخصاً، صفحہ 196،198 جلد2، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_7:
”اس کے بعد ابن زیاد نے اہل کوفہ کو ڈرایا دھمکایا تو اس کے بعد کی کیفیت کو شیعہ ملا باقر مجلسی نے ”اہل کوفہ“ کی بے وفائی کا عنوان دے کر بیان کیا اور لکھا کہ شام تک مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس شیعہ رہ گئے اور مسجد کے دروازے پر آنے تک ایک بھی کوفی شیعی آپ کے ہمراہ نہ رہاـ“
[جلاءالعیون ،جلد2، صفحہ200، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
کوفی شیعوں کی اس بے وفائی کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے کہا :
”اہل کوفہ نے مجھے فریب دے کر آوارہ وطن کیا عزیز و اقارب سے چھوڑایا اور میری نصرت نہ کی بلکہ تنہا چھوڑ دیا“۔
[جلاءالعیون ،جلد2، صفحہ201، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_8:
”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے وصیت کی : امام حسین ؑ کو اس مضمون کا خط لکھ کر کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاری نہ کی ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں “۔
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ204، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_9:
”محمد بن حنفیہ خدمت حضرت میں حاضر ہوئے اور کہا اے برادر جو کچھ اہل کوفہ نے مکر و غدر آپ کے پدر و برادر کے ساتھ کیا آپ جانتے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ سے بھی ویسا ہی سلوک نہ کریں “۔
[جلاءالعیون،جلد2، صفحہ207، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
اس خط میں صاف وضاحت ہے کہ کوفیوں نے جو مکر آپ کے والد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا اور آپ کے بھائی یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا کہیں وہی آپ کے ساتھ نہ کریں اور یہ بات معلوم ہے کہ کوفیوں نے ان دونوں حضرات کو شہید کیا محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور بعد میں انہی کوفی شیعوں جن کے خطوط پر اعتماد کرکے اہل بیت گھر سے نکلے ان اہل بیت کو بے دردی سے شہید کردیا۔
#حوالہ_نمبر_10:
امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے صاف اس بات کا اقرار کیا کہ مجھے جن لوگوں نے خطوط لکھے ہیں وہی مجھے قتل کریں گے اور اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ خط لکھنے والے شیعہ تھے تو اب خود مقتول کی گواہی کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ ناحق کسی پر قتل کا الزام لگائے۔چنانچہ امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :
”اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھے اور مجھے بلایا اور یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ـ“
[جلاءالعیون،جلد2 صفحہ210،211، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#حوالہ_نمبر_11:
”جب دوسرا دن ہوا عمر بن سعد لعین مع چار ہزار منافقین داخل کربلا ہوا اور مقابل لشکر امام حسین ؑ اترا ....ان میں سے اکثر وہی لوگ تھے جنہو ں نے خطوط لکھے اور حضرت کو عراق میں بلایا تھا “۔
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ220، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
اس حوالے میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو شہید کرنے کیلئے آنے والے اکثر وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو خطوط لکھے۔
#حوالہ_نمبر_12:
امام حسین نے اپنے ان شیعوں کوفیوں کی بے وفائی کو دیکھا تو کیا فرمایا یہ قول خود قاتل کے خلاف مقتول کی شہادت ہے:
” اے بیوفایان جفاکاران خدا تم پر وائے ہو تم نے ہنگامہ اضطراب و اضطراراپنی مدد کو مجھے بلایا اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا اور تمہاری نصرت و ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی ـ“
[جلاءالعیون،جلد2، صفحہ232، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
”شمشیر کینہ “ کا لفظ اس بات کی صراحت کررہا ہے کہ ان کوفی شیعوں کو شروع دن سے اہل بیت سے سخت قسم کا کینہ تھا اور اسی کینہ کی بنیاد پر اولا امام حسین کے والد پھر ان کے بھائی اور اب دھوکا و فراڈ دے کر ان کو شہید کرنے کے درپے ہیں اور آج بھی اسی دھوکہ و فراڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی ماتم کرکے قتل کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔
#حوالہ_نمبر_13:
”ام کلثوم نے خطبہ دیا اور شیعوں سے فرمایا :
اے اہل کوفہ تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین ؑ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا ـ“
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ273، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
اس میں بھی اہل بیت اور اس واقعہ کی عینی شاہدہ کی طرف سے اس بات کی صراحت ہے کہ امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو بلانے والے ہی ان کے قاتل تھے ۔
#حوالہ_نمبر_14:
”حضرت امام زین العابدین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :
ایھا الناس میں تم کو قسم خدا کی دیتا ہوں تم جانتے ہو کہ میرے پدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی آخر کار ان سے جنگ کی ۔“
[جلاءالعیون،جلد2، صفحہ373، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
یہ اس واقعہ کے ایک اور عینی شاہد کا بیان ہے کہ امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو قتل کرنے والے بلانے والے ہی تھے ۔ الحمد للہ ہم نے امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا قاتل کون پر خود مقتول دو عینی گواہوں اور دو مزید گواہ (محمد بن حنفیہ ،مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما) کی گواہیاں پیش کردی کہ انہوں نے امام حسین کا قاتل انہی لوگوں کو بتایا جنہوں نے آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو خطوط لکھ کر بلایا ان میں سے کسی نے بھی سوال میں مذکور افراد کا نام نہیں لیا لہذا شرعی قاعدے کے مطابق کوفی شیعہ ہی امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے قاتل ہیں جبکہ جن افراد کا نام لیا گیا ان پر قتل کا محض الزام ہے کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں ۔
#رافضی_تاویلات:
#تاویل_نمبر1:
جلاء العیون کا مُحشی کوثر بھر یلوی شیعہ کہتا ہے کہ:
”خطوط لکھنے والے شیعہ نہ تھے کیونکہ وہ امام کا مطالبہ کررہے تھے کہ امام حسین ؓ آپ آئیں کیونکہ یہاں ہماراکوئی امام نہیں جبکہ شیعہ مذہب میں تو امام منصوص من اللہ ہوتا ہے کسی کو امام منتخب کرنے کا اختیار نہیں “
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ189، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#جواب:
یہ بھی شیعہ کا مکر ہے اولاً اس لئے کہ جب خود خطوط لکھنے والوں کی طرف سے شیعہ ہونے کا اقرار موجود ہے اور بقول شیعہ کوفہ میں شیعہ ہی تھے تو بغیر کسی معتبر دلیل کے عقلی ڈھکوسلوں سے تو بات نہیں بنے گی۔
ثانیاً افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوثر بریلوی کی جہالت کا یہ حال ہے کہ اسے خود اپنے مذہب کی تاریخی کتب کی عبارت فہمی کا بھی سلیقہ نہیں ۔کوفی جن معنوں میں امام حسین کی امامت کا ذکر کررہے ہیں وہ اس معنی میں امام نہیں جو منصوص من اللہ ہے وہ تو پہلے ہی ان کا عقیدہ تھی تبھی تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بجائے امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو طلب کررہے ہیں بلکہ وہ تو سیاسی امامت کیلئے بلارہے تھے چنانچہ خود امام حسین نے اس ”امام “ کے لفظ کی تشریح جو خط میں مذکور تھی ان الفاظ میں کی:
”میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ امام وہی ہے جو درمیان مردم بکتاب خدا حکم اور بعدالت قیام کرے اور قدم جاہ شریعت مقدسہ سے باہر نہ رکھے اور لوگوں کو دین حق پر مستقیم رکھے “۔
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ190، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
#تاویل_نمبر2: وہ شیعہ مخلص نہ تھے منافق تھے ۔
#جواب:
یہ دعوی بھی بلا دلیل ہے ۔اور اپنی کتب سے جہالت کا ثبوت ہے ۔امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو خط لکھنے والے مخلص شیعہ ہی تھے چنانچہ خود تمہارا ملا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ جب ان کا ایک قاصد جب گرفتار ہوا تو :
”حصین بن نمیر لعین نے اس قاصد کو پکڑلیا اور چاہا وہ خط امام حسین ؑ کا اس سے چھین لے قاصد نے وہ خط چاک کر ڈالا اور حسین ؑ کا نہ دیا حصین بن نمیر شقی نے قاصد امام حسین کو ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ابن زیاد نے اس سے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں علی ابن طالب اور ان کے فرزند گرامی کا شیعہ ہوں ابن زیاد نے کہا تو نے خط کیوں چاک کیا قاصد نے کہا اس وجہ سے چاک کیا کہ تو اس مضمون پر مطلع نہ ہونے پائے ابن زیاد نے کہا وہ کس نے لکھا تھا اور کس کے نام تھا قاصد نے کہا خط امام حسین ؑ نے ایک جماعت اہل کوفہ لو لکھا تھا کہ میں ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوں ابن زیاد شقی غضبناک ہوا اور کہا میں تجھ سے دستبردار نہ ہوں گا جب تک ان لوگوں کے نام تو مجھ سے بیان نہ کرے گااور منبر پر جاکر امام حسین ان کے پدر مادر و برادر کو ناسزا کہے گا اگر تونے ایسا نہ کیا تو مجھے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا قاصد منبر پر گیا اور جمیع بنی امیہ پر لعن بے شمار کیا “۔
[جلاءالعیون، جلد2، صفحہ212 ، 213، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
جمیع بنو امیہ پر بے شمار لعنت کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قاتلین امام حسین یہی بدبخت تبرا باز شیعہ تھے۔
ثانیاعبد اللہ بن قیطیر شہادت کے وقت فرماتے ہیں :
”ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھالیا ہے ۔“
[جلاءالعیون، جلد2 صفحہ214، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
”ہمارے شیعوں “ کا لفظ ہی بتارہا ہے کہ وہ شیعہ منافق نہیں بلکہ بقول روافض ان کے اپنے مخلص شیعہ تھے ۔اس ہمارے لفظ کی وضاحت خود اسی کتاب میں ایک اور جگہ پر موجود ہے چنانچہ رافضیوں کا بارہواں امام غائب کہتا ہے :
”جو ہمارے شیعوں میں سے زمین پر ہوگا خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجے گا۔۔۔خداوند عالم ہمارے شیعوں کو چند ایسی کرامتیں بخشے گا“۔
[جلاءالعیون، جلد 2 ،صفحہ261، ناشر عباس بک ایجنسی، رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
کوثر بریلوی جی جب یہ}} ہمارے شیعہ{{ امام مہدی کے پاس ہوں تو صاحب کرامت بن جائیں اور جب یہی}} ہمارے شیعہ{{ امام حسین کے پاس ہوں تو منافق بن جائیں ؟
ٹھیک ہے تقیہ آپ کا مذہب ہے لیکن کیا آپ کی غیرت گوارا کرتی ہے کہ اپنے آباو اجداد کو منافق کہتے پھریں ؟ اور پھر ان کے نام پر ٹکڑے بھی کھائیں؟
الغرض امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے قتل میں یہی شیعہ ملوث تھے ۔مخلص مومنین صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی اہل سنت پر اس کا کوئی الزام ثابت کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی اولاد اپنے شیعوں سے کس قدر بیزار تھے اور صحابہ جو اہل سنت کے آئمہ ہیں پر کس قدر اعتماد کرتے تھے اس کیلئے فی الوقت صرف ایک حوالہ نقل کرکے میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں ۔
امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہی شیعوں کی مکاریوں سے دل برداشتہ ہوکر فرماتے ہیں:
”بخدا اس جماعت سے میرے لئے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون حفظ کروں اور اپنے اہل و عیال سے بے خوف ہوجاو ¿ں اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و عیال و عزیز و اقارب ضائع ہوجائیں قسم بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں یہی لوگ مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں ۔“
[جلاءالعیون ،جلد1،صفحہ 379، ناشر عباس بک ایجنسی رستم نگر، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ ھند]
اللہ اکبر ! کیا اب بھی کوئی شک و شبہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اہل بیت کے قتل سے بری ہیں اور ان کو قتل کرنے والے ان کا مال و اسباب لوٹنے والے یہی شیعہ بدبخت ہیں۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
؎یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
مدینے پاک کا بھکاری
محمد اُویس رضاعطاری