کتبہ:
الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ مخدوم لاہوری، مڈاسہ. درجہ : سادسہ)
تخلیقِ انسانی کا مقصد
معزز قارئین اگر دنیا کا کوئی شخص ایک حقیر اور ادنیٰ سی چیز بھی بناتا ہے، تو اس کے ذہن میں اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، کیونکہ بے مقصد چیز کو بنانا بے وقوفی ہے۔ اور چیز جتنی معظم، مکرم اور اچھی ہو، اس کے مقاصد بھی اتنے ہی اچھے اور بڑے ہوتے ہیں۔
تو جب ایک چھوٹی سی اور حقیر چیز کو بنانے والا شخص کسی مقصد کے تحت بناتا ہے، تو اب ظاہر سی بات ہے کہ اس پوری کائنات کو بنانے والے خالق و مالک عَزَّوَجَلَّ نے بھی اس کائنات کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت بنایا ہوگا۔
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ
یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکمت سے اور بامقصد بنایا۔
(سورۃ العنکبوت: 44)
کائنات میں جتنی بھی چیزیں موجود ہیں، ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ جیسے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ
(یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔)
(سورۃ النحل: 12)
ہم سورج اور چاند کے کام دیکھ بھی رہے ہیں کہ سورج اور چاند کے کیا کیا منافع ہیں۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے دن اور رات کا بدلنا، مہینے کا تبدیل ہونا، سال کا تبدیل ہونا۔ سورج نکلتا ہے تو اس کی کرنیں پیڑ پودوں پر پڑتی ہیں، تو ہمارے لیے پھل نکلتے ہیں، فصلیں تیار ہوتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یعنی کائنات کی ساری چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دیے گئے حکم کی پابند ہیں اور وہ اپنا کام کر رہی ہیں، جس سے ہم فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ مگر یہ ایک انسان ایسا ہے جس نے اپنے مقصد کو بھلا دیا۔
انسان کی پیدائش کا مقصد
آئیے! انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے، اسے ہم سنتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
یعنی میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
(سورۃ الذاریات: 56)
خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
(یعنی اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے۔)
(سورۃ الملک: 2)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بندہ دن اور رات صرف اور صرف عبادت میں ہی گزارے، سجدوں میں رہے، نمازوں میں مصروف رہے، تو اپنی زندگی کی جو ضروریات ہیں، انہیں کیسے پورا کرے گا؟
تو اس کا جواب احادیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنیے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث: 1)
یعنی بندہ کوئی بھی عمل کرتا ہے، تو اسے اس میں ثواب تب ہی ملے گا جب وہ اچھی نیت سے اس عمل کو کرے۔بندہ اپنی زندگی کی ضروریات مثلاً کھانا، پینا، سونا، اُٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پہننا، وغیرہ— جتنی بھی ضروریات ہوتی ہیں، ان کو اچھی اور نیک نیت سے عبادت بھی بنا سکتا ہے۔
جیسے اگر وہ کھانا کھا رہا ہے تو اس میں وہ نیت کر لے کہ:"اللہ پاک کی رضا پانے اور ثواب کمانے کی نیت سے ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ کھاؤں گا، سنت کے مطابق بیٹھ کر کھاؤں گا، تین انگلیوں سے کھاؤں گا، اول و آخر کی دعا پڑھوں گا، اور جو کھانے سے قوت حاصل ہوگی، اس سے علمِ دین حاصل کروں گا۔"
تو یوں بندہ نیک نیت کے ذریعے اپنی زندگی کی تمام ضروریات کو بھی عبادت میں منتقل کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے پاس علمِ نیت بھی ہو۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ
(کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں: "ہم ایمان لائے"، اور اُن کی آزمائش نہ ہوگی؟)
(سورۃ العنکبوت: 2)
یہ آیتِ مبارکہ پکار پکار کر مسلمانوں کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ:
"اے مسلمانو! صرف یہ کہہ دینے سے کہ 'ہم ایمان لائے' تمہیں نہیں چھوڑ دیا جائے گا، بلکہ تمہیں تمام اعمال میں آزمایا جائے گا کہ تم مشقت برداشت کرتے ہو یا نہیں۔"
نتیجہ
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے، تو ہم بھی پوری مکمل توجہ کے ساتھ اپنے مقصدِ انسانی پر نظر رکھیں اور اس کے مطابق زندگی گزاریں۔
اگر ہم علمِ دین حاصل کر رہے ہیں، تو مکمل توجہ کے ساتھ اس میں نیک نیتوں کو شامل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری محنت اور جو مشقت علمِ دین حاصل کرنے میں برداشت کر رہے ہیں، وہ غلط نیتوں یا کوتاہی کی وجہ سے برباد ہو جائے!
اس لیے کوتاہیوں اور سستیوں کو اپنے سے دور کریں، مکمل محنت کے ساتھ اپنے مقصد پر توجہ دیں، اور نفس و شیطان کے وار سے بچتے رہیں، علمِ دین حاصل کرتے رہیں، نیکوکاروں کی صحبت میں بیٹھتے رہیں۔ ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ! اس کی برکت سے آپ کا مقصد آپ کے ذہن میں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد کے تحت زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہِ النبیِّ الأمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔