مزید اپڈیٹس کا کام جاری ہے! اپنے مشورے دیجیے ہم سے رابطہ کریں!

صلح کرانے کی فضیلت و اہمیت | قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل مضمون

اس مضمون میں صلح کرانے کی فضیلت، قرآنی آیات، احادیث، صحابۂ کرام کے واقعات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جانیں کہ دو مسلمان
محمد کامران رضا گجراتی,مضمون نگاری,مدنی دنیا,صلح کی فضیلت, صلح کرانے کی فضیلت و اہمیت | قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل مضمون اس مضمون میں صلح کرانے کی فضیلت، قرآنی آیات، احادیث، صحابۂ کرام کے واقعات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جانیں کہ دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا کتنا عظیم عمل ہے۔
کتبہ: محمد کامران رضا گجراتی

صلح کرانے کی فضیلت و اہمیت

اسلام ایک ایسا دین ہے جو سراپا امن، محبت، بھائی چارے اور صلح و آشْتی کا درس دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا مسلمانوں کو آپس میں محبت اور اتفاق سے رہنے، ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی اور حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر افسوس! آج کے دور میں مسلمان ان روشن تعلیمات کو بھول بیٹھے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن بن چکا ہے۔ رشتہ داروں میں نااتفاقی، بھائیوں میں عداوت، خاندانوں میں نفرت، اور دلوں میں کینہ و بغض نے جگہ بنا لی ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دوستوں، بھائیوں، رشتہ داروں یا خاندانوں کے درمیان نااتفاقی ہو جائے، تو ہمیں ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر صلح کروانے کی فضیلت اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے اور نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے ان میں صلح کرائیں اور اس عظیم عمل کے ذریعے اللہ کا قرب اور ثواب حاصل کریں۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ۔
ترجمہ کنزالایمان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔
(پارہ: 26، آیت:9)
اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے ہوۓ صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: "نبی کریم ﷺ دراز گوش پر سوار تھے تشریف لے جا رہے تھے ، انصار کی مجلس پر گزر ہوا، وہاں تھوڑا سا توقف فرمایا، اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے ناک بند کر لی۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خُوشبو رکھتا ہے ، حضورﷺ تو تشریف لے گئے ، ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑگئیں اور ہاتھ پائی تک نوبت پہنچی تو سید عالم ﷺ واپس تشریف لاۓ اور ان میں صلح کرادی، اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی

(صلح کروانے کے فضائل، صفحہ:3 )

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
ترجمه كنزالایمان: مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔
(پارہ:26، آیت:10)
مفتی دعوتِ اسلامی، مفتی قاسم قادری صاحب، اپنی تفسیر 'تفسیر صراط الجنان' میں اس آیتِ کریمہ کے تحت، تفسیر خازن کے حوالے سے فرماتے ہیں :- مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں سے مضبوط تر ہے۔ لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ا س پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔
(تفسیر خازن، الحجرات، آیت :10،ج: 4، ص: 168)

اسی موضوع پر چند حدیث رسول ﷺ ملاحظہ فرمائیں۔ وعن أنس: بينا رسول الله ﷺ جالس؛ إذ رأيناه ضحك حتى بدت ثناياه،فقال له عمر: ما أضحك يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، قال: «رجلان من أمتي جثيا بين يدي رب العزة، فقال أحدهما: يا رب، خذ لي مظلمتي من أخي، فقال الله: ما تصنع بأخيك ولم يبق من حسناته شيء، قال: يا رب، فليتحمل من أوزاري» وفاضت عينا رسول الله ﷺ بالبكاء، ثم قال: «إن ذلك ليوم عظيم، يحتاج الناس أن يحمل عنهم من أوزارهم، فقال الله للطالب: ارفع بصرك فانظر، فقال: يا رب، أرى مدائن من ذهب وفضة مكلَّلة باللؤلؤ، لأي نبي هذا، أو لأي صديق هذا، أو لأي شهيد هذا؟ قال: هذا لمن يعطي الثمن، فقال: يا رب، ومن يملك ذلك؟ قال: أنت تملكه، قال: بماذا؟ قال: بعفوك عن أخيك، قال: يا رب، فإني قد عفوت عنه، قال الله تعالى، فخذ بيد أخيك وأدخله الجنة»، فقال رسول الله ﷺ عند ذلك: «اتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم، فإن الله يصلح بين المسلمين يوم القيامة»
ترجمہ:- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ ہمارے درمیان جلوہ افروز تھے۔ ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسکرانے لگے یہاں تک کہ آپ کے سامنے والے دندان مبارک ظاہر ہوگئے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ پر میرے ماں باپ قربان آپﷺ کس سبب سے مسکرائے؟ تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے دو لوگ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل گر پڑے ان میں سے ایک نے عرض کی : اے رب ! مجھے میرے بھائی سے ظلم کا بدلہ دلا تو اللہ پاک فرمائے گا : تو اپنے بھائی سے کیا لے گا حالانکہ اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں ! تو وہ عرض کرے گا : اے رب! میرے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے ! اتنا فرما کر نبی کریم ﷺ کے آنکھوں میں آنسوؤ آگئے پھر فرمایا بے شک وہ عظیم دن ہے کہ لوگ چاہیں گے کہ ان کے گناہوں کا بوجھ ان سے اٹھا دیا جائے تو اللہ تبارک و تعالی اس بدلہ طلب کرنے والے سے فرمائے گا : اپنی نگاہ کو اٹھا کر دیکھ وہ عرض کرے گا اے رب میں سونے اور چاندی کے شہر دیکھتا ہوں جو موتیوں سے آراستہ ہے یہ شہر کس نبی یا صدیق یا شہید کے لیے ہے؟ تو اللہ پاک فرمائے گا یہ اس کے لیے ہے جو اس کی قیمت ادا کرے تو وہ عرض کرے گا اے رب اس کی طاقت کون رکھتا ہے؟ اللہ پاک فرمائے گا تو اس کی طاقت رکھتا ہے وہ عرض کرے گا اس کی قیمت کیا ہے اللہ فرمائے گا کہ تو اپنے بھائی کو معاف فرمائے وہ عرض کرے گا اے رب میں نے اس کو معاف کر دیا تو اللہ فرمائے گا کہ اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اس کو جنت میں داخل کر دے تو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا اللہ سے ڈرو اور باہمی صلح کر لو تو بے شک اللہ قیامت کے دن مسلمانوں کے درمیان صلح فرمائے گا۔
(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية۔ ج: 12، ص:354)

حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے : میں نے جنت میں سونے، موتی، یاقوت اور زبرجد کے محلات دیکھے جن کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے دکھائی دیتا ہے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: ”یہ محلات و ٹھکانے کس کے لئے ہیں؟“ تو انہوں نے عرض کی: ”اس شخص کے لئے جو صلہ رحمی کرے، سلام کو عام کرے، نرمی سے گفتگو کرے، یتیموں پر نرمی کرے اور رات کو جب لوگ سوجائیں تو وہ نماز پڑھے“۔

(نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص: 98)

عن ابي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا اخبركم بافضل من درجة الصيام والصلاة والصدقة؟ , قالوا: بلى يا رسول الله، قال: إصلاح ذات البين وفساد ذات البين الحالقة
ترجمہ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پرنورﷺ کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔

(سنن ابو داؤد، کتاب الادب، ج: 4 ، ص :325 ، حدیث 4919)

مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے
تو توڑ پیدا کرنے کے لیے نہیں آیا

(مثنوی مولوی معنوی ج:2، ص:173)

عَن أنس رضي الله عنه عَن النَّبِي ﷺ قَالَ من أصلح بَين النَّاس أصلح الله أمره وَأَعْطَاهُ بِكُل كلمة تكلم بهَا عتق رَقَبَة وَرجع مغفورا لَهُ مَا تقدم من ذَنبه.

ترجمہ:- حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان مغفرت نشان ہے: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کراۓ گا اللہ تعالیٰ اس کا معاملہ درست فرمادے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔

(الترغیب والترہیب، ج:3 ، ص:321 ، حدیث:9 )

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ» إِلَّا فِي ثَلَاثٍ؛ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ۔

ترجمہ:- حضرت سیدتنا اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔

(ترمذی، ج: 3، ص: 494، حدیث: 1939)

حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:- تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں۔
تین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے مثلاً ایک کے سامنے یہ کہدے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہاری تعریف کرتا تھا یا اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تاکہ دونوں میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔

(بہار شریعت، ج:3، حصہ: 16 ، ص: 518)

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهٗ فِي رِزْقِهٖ وَيُنْسَأَ لَهٗ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.

ترجمہ:- روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ جو چاہے کہ اس کے رزق میں وسعت دی جاوے اور اس کی موت میں دیر کی جاوے تو وہ صلہ رحمی کرے۔

(صحیح البخاری، کتاب الادب، ج: 4 ، ص:97، حدیث: 5986)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:- کہ موت میں دیر لگانے سے مراد ہے عمر دراز دینا یعنی جو رزق میں برکت عمر میں درازی چاہے وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔خیال رہے کہ تقدیر تین قسم کی ہے: مبرم،معلق، مشابہ مبرم، تقدیر مبرم میں کمی و بیشی ناممکن ہے مگر باقی دو تقدیروں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ دعا نیک اعمال سے عمر بڑھ جانے اور بد دعا بدعمل سے عمر گھٹ جانے کا یہ ہی مقصد ہے کہ آخری دو قسم کی عمریں گھٹ بڑھ جاتی ہیں۔

(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج:6، حدیث: 4918)

پیارے بھائیو! ہماری پاکیزہ شریعت نے دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان صلح کروائیں، اختلافات کو ختم کریں، اور محبت و الفت کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
اب آئیے! قطع تعلق کے انجام سے متعلق ایک حکایت سنتے ہیں۔

قطع تعلق کی سزا

قال الفقيه : حدثنا يحيى بن سليم قال : كان عندنا بمكة رجل من أهل خراسان، وكان رجلاً صالحاً، وكان الناس يودعونه ودائعهم، فجاء رجل ؛ فأودعه عشرة آلاف دينار، وخرج الرجل في حاجته ، فقدم الرجل مكة، وقد مات الخراساني، وسأل ولده وأهله عن ماله، فلم يكن لهم به علم، فقال الرجل لفقهاء مكة - وكانوا يومئذ مجتمعين متوافرين - : أودعت فلانا عشرة آلاف دينار، وقد مات، وسألت ولده وأهله فلم يكن لهم بها علم، فما تأمرونني ؟ فقالوا : نحن نرجو أن يكون الخراساني من أهل الجنة، فإذا مضى من الليل ثلثه أو نصفه، فائت زمزم فاطلع فيها وناد يا فلان بن فلان أنا صاحب الوديعة، ففعل ذلك ثلاث ليال، فلم يجبه أحد، فأتاهم، وأخبرهم ، فقالوا : إنا لله وإنا إليه راجعون نحن نخشى أن يكون صاحبك من أهل النار فائت اليمن، فإن فيها وادياً يقال له برهوت، و به بئر، فاطلع فيها إذا مضى ثلث الليل أو نصفه، فناد: یا فلان بن فلان أنا صاحب الوديعة، ففعل ذلك، فأجابه في أول صوت فقال : ويحك، ما أنزلك ههنا، وقد كنت صاحب خير قال : كان لي أهل بيت بخراسان، فقطعتهم حتى مت، فأخذني الله بذلك، فأنزلني هذا المنزل.

ترجمہ:- حضرت فقيه ابو اللیث سمرقندى علیہ الرحمہ "تَنبِيهُ الْغَافِلِين“ میں نقل کرتے ہیں، حضرت سیدنا یحییٰ بن سلیم رضی الله عنہ فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ میں ایک نیک شخص خراسان کا رہنے والا تھا، لوگ اس کے پاس اپنی امانتیں رکھتے تھے، ایک شخص اس کے پاس دس ہزار اشرفیاں امانت رکھوا کر اپنی کسی ضرورت سے سفر میں چلا گیا ، جب وہ واپس آیا تو خراسانی فوت ہو چکا تھا ، اس کے اہل و عیال سے اپنی امانت کا حال پوچھا: تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی ، امانت رکھنے والے نے علمائے مکہ مکرمہ سے پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ انہوں نے کہا: ” ہم امید کرتے ہیں کہ وہ خراسانی جنتی ہوگا، تم ایسا کرو کہ آدھی یا تہائی رات گزرنے کے بعد زمزم کے کنویں پر جا کر اُس کا نام لے کر آواز دینا اور اُس سے پوچھنا ۔ اس نے تین راتیں ایسا ہی کیا ، وہاں سے کوئی جواب نہ ملا، اُس نے پھر جا کر ان علماء کرام کو بتایا ، انہوں نے " إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون “ پڑھ کر کہا: ” ہمیں ڈر ہے کہ وہ شاید جنتی نہ ہو تم یمن چلے جاؤ وہاں بر برہوت نامی وادی میں ایک کنواں ہے، اس پر پہنچ کر اسی طرح آواز دو، اس نے ایسا ہی کیا تو پہلی ہی آواز میں جواب ملا کہ میں نے اس کو گھر میں فلاں جگہ دفن کیا ہے اور میں نے اپنے گھر والوں کے پاس بھی امانت کو نہیں رکھا، میرے لڑکے کے پاس جاؤ اور اس جگہ کو کھودو تمہیں مل جائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور مال مل گیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ تو تو بہت نیک آدمی تھا تو یہاں پہنچ گیا ؟ وہ بولا : میرے کچھ رشتے دار خراسان میں تھے جن سے میں نے قطع تعلق (یعنی رشتہ توڑ رکھا تھا) کر رکھا تھا اسی حالت میں میری موت آگئی اس سبب سے اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے مجھے یہ سزا دی اور اس مقام پر پہنچادیا۔

(تنبيه الغافلين، باب: صلة الرحم ص:137)

صلح کس طرح کروائیں؟ اے عاشقانِ رسول! ہمیں بھی چاہئے کہ ان فضائل کو حاصل کرنے کے لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروادیاکریں۔ صلح کروانے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کریں ، پھر لڑنے والوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی باتیں سنیں ، پھر نرمی سے صلح کرنے کے فضائل بیان کریں اور آپسی جھگڑےو اختلافات کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کریں ، پھر دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر آپس میں صلح کروادیں۔
پیارے بھائیو! ان آیات واحادیث سے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی فضیلت واہمیت معلوم ہوئی لہذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و کمالات حاصل کریں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمانوں کو سمجھانا بیکار نہیں بلکہ مفید ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے

(پارہ: 27، سورۃ: الذریت، آیت: 55)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
NextGen Digital واٹس ایپ چیٹ پر آپ کو خوش آمدید
السلام علیکم ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہئں؟?
Type here...