نحوی قاعدے سے بے خبر کون؟
امامِ اعظم علیہ الرحمہ یا جاہل غیر مقلدین
کتبہ:
مولانا محمد سلیم رضا مدنی (3 جون، 2025ء / بروز منگل)
غیر مقلدین کے متعصب ذہنوں کو نہ امامِ اعظم کی فقاہت ہضم ہوتی ہے اور نہ آپ کی جلالتِ علمی۔ یہی وجہ ہے کہ امامِ اعظم کی شان گھٹانے کے لیے بے سروپا اعتراضات گھڑتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کے ایک جاہلانہ اعتراض کے تعلق سے شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں:
"غیر مقلدین نے کہیں سے امامِ اعظم کا یہ قصہ نکال ڈالا کہ ابو عمر علی نحوی مقری نے حضرت امامِ اعظم سے پوچھا کہ قتل بالمثقل سے قصاص واجب ہے یا نہیں؟
فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
اس پر ابو عمر نے کہا: ’’اگر وہ منجنیق سے مارے تب بھی؟‘‘
فرمایا: لَو قَتَلَهُ بِاَبَا قُبَیْسٍ۔ (اگرچہ جبلِ ابی قبیس سے قتل کرے۔)"
چونکہ "ابا قبیس" پر "با" حرفِ جار داخل ہے، اس لیے اسے "یا" کے ساتھ بِأَبِی قُبَیْسٍ ہونا چاہیے۔ امامِ اعظم نے اسے الف کے ساتھ فرمایا۔ غیر مقلدین کی نظر میں یہ نحو سے ناواقفیت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس سے ایک طرف تو امامِ اعظم علیہ الرحمہ کا نحوی تبحر ثابت ہوتا ہے، دوسری طرف ان معاندین کی جہالت اور علمِ نحو میں ان کی بے مائیگی بھی ثابت ہوتی ہے۔ حد یہ ہے کہ بخاری سے بھی واقفیت نہیں۔
صحیح بخاری میں قتلِ ابی جہل کا واقعہ ہے کہ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ ابو جہل کا سر قلم کرنے گئے تو اس سے کہا: "أَنتَ أَبَا جَهْلٍ"
(روایت بطریق محمد بن مثنٰی ہے۔ اس میں معتمد روایت یہی ہے جیسا کہ فتح الباری میں ہے)
حالانکہ حالتِ رفعی میں أَبُو جَهْلٍ ہونا چاہیے! اب جو اعتراض امامِ اعظم پر ہے، وہی امام بخاری پر بھی کرو! مگر یہاں زبان نہیں کھلے گی کیوں کہ تقلید جو کر لی!
جب کہ یہ ان کی جہالت ہے۔ نہ امام بخاری غلط ہیں، نہ امامِ اعظم غلط۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ بِاَبَا قُبَیْسٍ غلط ہے اور نہ "أَنتَ أَبَا جَهْلٍ"۔ بلکہ اسمائے ستہ مکبرہ میں ایک لغت یہ بھی ہے کہ جب غیرِ یائے متکلم کی جانب اسمائے ستہ کی اضافت ہو تو ہر حالت میں "الف" کے ساتھ ان کا اعراب ہوگا۔
چنانچہ اسی لغت پر یہ شعر ہے:
"إن أباها وأبا أباها
قد بلغا في المجد غايتاها"
مگر ان کو یہی معلوم ہے کہ چونکہ "نحو میر" میں اسمائے ستہ مکبرہ کا اعراب یہ لکھا ہے کہ حالتِ جر میں "یاء" کے ساتھ اور حالتِ رفع میں "واو" کے ساتھ، اس لیے "أَنتَ أَبَا جَهْلٍ" اور "لَو قَتَلَهُ بِاَبَا قُبَیْسٍ" غلط ہے۔
(ملخصاً از: نزھۃ القاری بشرح صحیح البخاری، صفحہ: 156، مطبوعہ: رضوی کتاب گھر، دہلی)