مزید اپڈیٹس کا کام جاری ہے! اپنے مشورے دیجیے ہم سے رابطہ کریں!

عید غدیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | غدیر خم، خلافت و ولایت کا حقیقت پر مبنی تجزیہ

کیا عید غدیر خلافتِ علی رضی اللہ عنہ کا اعلان تھا؟ اس تحقیقی مضمون میں اہلِ سنت کے دلائل، حدیثِ غدیر کی درست تشریح، اور رافضیوں کے باطل نظریات کا تنقی
Bu mohammadraza
کیا عید غدیر خلافتِ علی رضی اللہ عنہ کا اعلان تھا؟ اس تحقیقی مضمون میں اہلِ سنت کے دلائل، حدیثِ غدیر کی درست تشریح، اور رافضیوں کے باطل نظریات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ عید غدیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | غدیر خم، خلافت و ولایت کا حقیقت پر مبنی تجزیہ عید غدیر,الماس نوری عطاری,در شیعت,مضمون نگاری,
کتبہ: الماس نوری عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ مخدوم لاہوری، مڈاسہ. درجہ : سادسہ)

عید غدیر ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

رافضی لوگ ۱۸ ذی الحجہ کو اپنے گمانِ فاسد سے عیدِ غدیر مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان کیا۔ حالانکہ اس فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صحابہ نے اور نہ ہی خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت مراد لی، بلکہ یہ صرف ان بے عقلوں کی گمراہ عقلوں کا اختراع ہے۔ رافضیوں کے نزدیک عیدِ غدیر سب سے بڑی عید شمار ہوتی ہے، بلکہ وہ اسے "عید اللہ الاکبر" (اللہ کی سب سے بڑی عید) قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کے عقیدۂ باطلہ اور گمانِ فاسد میں امامت اسی دن ثابت ہوئی تھی۔ بلکہ اس دن پر کئی مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اس دن کی تعظیم کرتے اور اس کا جشن مناتے ہیں۔
عیدِ غدیر کا سب سے پہلا جشن معز الدولہ بن بویہ نے ۳۵۲ ہجری میں بغداد میں منایا تھا۔ اہلِ سنت کے نزدیک عیدِ غدیر نہ کوئی شرعی (مشروع) عید ہے، اور نہ ہی امت کے سلف صالحین میں سے کسی نے اسے منایا۔ یہ لوگ حدیثِ پاک کا پس منظر سمجھے بغیر بطورِ استدلال یہ حدیثِ پاک پیش کرتے ہیں:
"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"۔
اس فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف اہلِ بیت اور مولا علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان کا بیان ہے، جس کا پس منظر یہ ہے:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب ہم غدیرِ خم کے مقام پر پہنچے تو اعلان کیا گیا: "نماز کے لیے جمع ہو جاؤ"، پھر آپ ﷺ کے لیے دو درختوں کے نیچے جگہ صاف کی گئی، آپ ﷺ نے نمازِ ظہر ادا کی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں؟" لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مؤمن پر اس کی جان سے بھی زیادہ اختیار رکھتا ہوں؟" لوگوں نے کہا: جی ہاں! تب آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ یا اللہ! جو اس سے محبت رکھے، تو بھی اس سے محبت رکھ، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس سے دشمنی رکھ۔" پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا: "مبارک ہو، اے ابنِ ابی طالب! تم ہر مؤمن و مؤمنہ کے ولی بن گئے۔"
(سنن ابن ماجہ المقدمة، حدیث: ۱۱۶۔ سنن ترمذی، باب مناقب علی، حدیث: ۳۷۱۳)
یہی اصل حقیقت ہے غدیرِ خم کی اور اس واقعہ میں جو کچھ پیش آیا۔ لیکن رافضیوں نے اس میں بہت کچھ اختراع کیا اور اس کو بدل دیا تاکہ اپنے مقصد اور عقیدے کو ثابت کر سکیں۔ انہوں نے اس واقعہ پر جھوٹی روایات کی بھرمار کی، ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیں۔
اسی بارے میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ "روح المعانی " (۶/۱۹۳) میں فرماتے ہیں: "یہ واقعہ ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اہم ترین دلیل ہے، مگر انہوں نے اس واقعہ میں اپنی خواہش کے مطابق من گھڑت باتیں شامل کر دیں، اور جھوٹے جملے گھڑ لیے۔" لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ۱۸ ذوالحجہ کو ایک عید یا جشن کے طور پر منانا، خوشیاں منانا – یہ ایک باطل بدعت ہے، اور ایک نئی اختراعی "عید" ہے جس کی دینِ اسلام میں کوئی بنیاد نہیں۔
اور رافضیوں سے اس طرح کے چیزوں کی ایجاد پر تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جھوٹ ان کی طبیعت میں رچا بسا ہے اور وہ اسے اپنا دین سمجھتے ہیں۔ ہمارے سلف صالحین نے اس خود ساختہ "عید" کے باطل ہونے کو واضح کر دیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو جن فطری عادات و خصائل پر پیدا فرمایا ہے، نیز صحابہ کرام کی امانت داری، دیانت داری کا تقاضا ہے کہ وہ حق کو ظاہر کریں۔ مگر پھر بھی صحابہ کرام نے حضور کے اس فرمان سے خلافت مراد نہ لی۔
حدیث "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" میں "مولا" سے کون. سا معنی مراد ہے؟ "مولیٰ" کا معنی صرف "والی" یا "امام" نہیں ہوتا۔ جیسا کہ "المعانی" میں ہے: "مولیٰ" عربی [اسم]، مالک، آقا، کسی کام کا منتظم یا انجام دہندہ، مخلص دوست، ساتھی، رفیق، معاہد، حلیف، آنے والا مہمان، پڑوسی، شریک، ساجھی، داماد، انعام دینے والا، انعام دیا جانے والا۔
اس حدیثِ پاک کی شرح میں حافظ ابو موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یعنی: جس کا میں دوست و محبوب ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے دوست و محبوب ہیں؛ یعنی جس سے میں محبت کرتا ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کریں گے۔" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: "جو مجھے اپنا ولی (سرپرست/دوست) مانتا ہے، وہ علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنا ولی مانے۔"
"تحفۃ الابرار شرح مصابیح السنہ" جلد ۳، صفحہ ۵۵۲ میں اس حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "المولیٰ" کے کئی معانی ہوتے ہیں: چچازاد بھائی، جس کے لیے حق ولاء (جس کے لیے وفاداری کا حق لازم) ہو، آزاد کرنے والا (معتق)، اس کے رشتہ دار (عصبات)، آزاد کیا گیا غلام، دوست، مددگار، اور اختیار و تصرف رکھنے والا۔
اور حدیث میں اس کا مطلب دوسرے معنی (یعنی: ولاء اور تعلق رکھنے والا) کے تحت لیا گیا ہے، کیونکہ روایت ہے کہ اسامہ بن زید نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: "آپ میرے مولیٰ (والی/رہنما) نہیں ہو، میرے مولیٰ تو صرف رسول اللہ ﷺ ہیں۔" تو نبی کریم ﷺ نے جب ان کا یہ قول سنا، تو اس پر رد کرتے ہوئے یہ (حدیثِ غدیر) ارشاد فرمایا۔ "شرح سنن ابی داؤد" لعبد المحسن العباد میں ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے رسول اللہ ﷺ مولیٰ ہیں، اُس کے علی رضی اللہ عنہ بھی مولیٰ ہیں۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے۔
لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یہ خصوصیت صرف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ ایک اور حدیث میں آیا ہے: "علی رضی اللہ عنہ سے صرف مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔" جبکہ یہی بات عمومی طور پر انصار کے حق میں بھی آئی ہے: "انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔"
لہٰذا، علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر اس طرح کا ذکر ان کے خاص فضائل کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ اُن حضرات سے افضل ہیں جو ان سے افضل ہیں (جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما)۔ مذکورہ اقتباسات سے ظاہر ہو گیا کہ حدیث میں مذکور لفظ "مولا" سے خلافت مراد نہیں۔ اگر حدیث میں مذکور لفظ "مولا" سے خلافت مراد ہوتی تو اعلانِ خلافت کی واضح صورت کیوں نہ اپنائی گئی؟ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زائد صحابہ کی موجودگی میں اعلانِ خلافت کی صراحت کیوں نہ کی گئی؟ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا انتخاب اور ان پر اجماعِ صحابہ کیوں ہوا؟ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لیے دعویٰ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے ساتھ بیعت کیوں کی اور انہوں نے خود خلافت کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟
لہٰذا غدیر کا واقعہ حقیقت ہے، مگر اس سے خلافتِ علی رضی اللہ عنہ مراد لینا بے بنیاد ہے۔ عیدِ غدیر منانا بدعت ہے۔ درحقیقت یہ گستاخانِ صحابہ، اہلِ بیت کی محبت کی آڑ میں صحابہ کرام کا بغض اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ عید غدیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی خوشی میں نہیں، بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یومِ شہادت کے جشن میں مناتے ہیں۔
حق پر وہ ہے جو اہلِ بیت کی محبت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت بھی کرے۔
ہر صحابی نبی جنتی جنتی
ابوبکر و عمر جنتی جنتی
عثمان غنی جنتی جنتی
معاویہ اور علی جنتی جنتی
اللہ پاک ہمیں ان گستاخانِ صحابہ و اہلِ بیت سے محفوظ فرمائے اور ہمیں سب صحابہ کرام سے عقیدت و محبت عطا فرمائے۔ آمین، یا رب العالمین، صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
Oops!
It seems there is something wrong with your internet connection. Please connect to the internet and start browsing again.
AdBlock Detected!
We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.
Site is Blocked
Sorry! This site is not available in your country.
NextGen Digital واٹس ایپ چیٹ پر آپ کو خوش آمدید
السلام علیکم ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہئں؟?
Type here...