کتبہ:
مولانا محمد سلیم رضا مدنی متخصص (13 جون / بروز جمعہ 2025ء)
عیدِ غدیر کی حقیقت اور روافض کا باطل استدلال
18 ذی الحج کو روافض عیدِ غدیر مناتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ خلافتِ ثلاثہ (ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم) کی خلافت کا انکار اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافتِ بلا فصل ثابت کرنا ہے۔ یہ روافض اور گستاخانِ صحابہ کا تہوار اور ان کی باطل ایجاد ہے۔
یہی وہ بدبخت گروہ ہے جس کے نمائندے آج بھی حسن اللہ یاری جیسے رافضی کی صورت میں علی الاعلان حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو (معاذ اللہ) کافر بول کر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایسے موقع پر کسی سُنّی کا حدیثِ غدیر کو بنیاد بنا کر اس دن کی تائید کرنا محض سادگی نہیں، بلکہ فتنۂ رافضیت کا شعوری یا لاشعوری طور پر آلۂ کار بن جانا ہے۔
رہی بات حدیثِ غدیر کی، تو بلاشبہ اس میں مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کا ذکر ہے، مگر اس سے خلافتِ بلا فصل کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔
حدیثِ پاک کے الفاظ:"جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں" اس میں مولیٰ کا معنی دوست، محبوب اور مددگار کے ہیں، یعنی ہمارے آقا و مولیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے مبارک فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس جس کا میں محبوب اور مددگار ہوں، اُس اُس کے علی بھی دوست، محبوب اور مددگار ہیں۔ لہٰذا خلافتِ بلا فصل کا استدلال سراسر باطل ہے۔
چنانچہ مرآۃُ المناجیح میں ہے: مولیٰ کے بہت معنی ہیں: دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام اور آزاد کرنے والا مولیٰ۔ اس کے معنی خلیفہ یا بادشاہ نہیں۔ یہاں بمعنی دوست اور محبوب ہے یا بمعنی مددگار۔ اور واقعی حضرت علی مسلمانوں کے دوست بھی ہیں اور مددگار بھی۔ اس لیے آپ کو مولیٰ علی کہتے ہیں۔
رب فرماتا ہے:
فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ
شیعہ کہتے ہیں کہ مولیٰ بمعنی خلیفہ ہے، اور اس حدیث سے لازم ہے کہ بجز حضرت علی کے خلیفہ کوئی نہیں، آپ خلیفہ بلا فصل ہیں۔ مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے:
1 ایک یہ کہ مولیٰ بمعنی خلیفہ یا بمعنی اولیٰ بالخلافہ کبھی نہیں آتا۔ بتاؤ اللہ تعالیٰ اور حضرت جبریل کس کے خلیفہ ہیں؟ حالاں کہ قرآنِ مجید میں انہیں مولیٰ فرمایا:
فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ
2 دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے خلیفہ نہیں، پھر "من کنت مولاہ" کے کیا معنی ہوں گے؟
3 تیسرے یہ کہ حضرت علی، حضور کی موجودگی میں خلیفہ نہ تھے، حالاں کہ حضور نے اپنی حیاتِ شریف میں یہ فرمایا، پھر مولیٰ بمعنی خلیفہ کیسے ہوگا؟
4 چوتھے یہ کہ اگر مان لو کہ مولیٰ بمعنی خلیفہ ہی ہو، تو بھی بلا فصل خلافت کیسے ثابت ہوگی؟ واقعی آپ خلیفہ ہیں مگر اپنے موقع اور اپنے وقت میں۔
5 پانچویں یہ کہ اگر یہاں مولیٰ بمعنی خلیفہ ہوتا، تو جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے حضرت صدیقِ اکبر نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "الخلافۃ فی القریش" یعنی خلافت قریش میں ہے۔ تم لوگ چونکہ قریش نہیں، لہٰذا تم امیر نہیں بن سکتے، وزیر بن سکتے ہو۔
اس وقت حضرت علی نے یہ واقعہ لوگوں کو یاد کیوں نہ کرا دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے خلافت دے گئے، میرے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا؟ بلکہ آپ خاموش رہے اور تینوں خلفا کے ہاتھ پر باری باری بیعت کرتے رہے۔
معلوم ہوا کہ آپ کی نظر میں بھی یہاں مولیٰ بمعنی خلیفہ نہ تھا۔
6 چھٹے یہ کہ حضور ﷺ کے مرضِ وفات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جنابِ علی سے کہا: "چلو، حضور ﷺ سے خلافت اپنے لیے لے لو۔"حضرت علی نے انکار کیا: "میں نہیں مانگوں گا، ورنہ حضور ﷺ مجھے ہرگز نہ دیں گے۔"
اگر یہاں مولیٰ بمعنی خلیفہ تھا، تو یہ مشورہ کیسا؟
7 ساتویں یہ کہ خلافت کے لیے روافض کے پاس نصِ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت چاہیے۔ یہ حدیث نہ تو قطعی الثبوت ہے کہ حدیثِ واحد ہے، نہ قطعی الدلالت کہ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں، اور مولیٰ بمعنی خلیفہ کہیں نہیں آتا۔
(مرآۃ المناجیح، شرح مشکٰوۃ المصابیح، جلد ۸، صفحہ ۲۲۵)