کتبہ:
محمد سمیر خان عطاری (متعلم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ امام احمد رضا . درجہ : خامسہ )
دنیا کی حقیقت اور قرآنی مثالیں
اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے آراستہ فرمایا، لیکن اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ دنیا ضرور ایک دن فنا ہو جائے گی۔ یہی اس کی عظیم حقیقت ہے، جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اسی بات کا اشارہ ہمیں قرآن مجید سے ملتا ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ (26) وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْإِكْرَامِ (27)
ترجمہ کنز الایمان: زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔
(سورۃ الرحمٰن)
دنیا کی زندگی ایک سفر کی مانند ہے۔ اس کا اختتام کب اور کس طرح ہو جائے، اس سے ہر شخص نا آشنا ہے۔ اس فانی دنیا سے لوگ لمبی لمبی امیدیں لگا کر زندگی کی رنگینیوں میں مست و مگن ہوتے ہیں۔ لیکن بالآخر جب انہیں موت آتی ہے تو حسرت و ندامت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ الغرض، دنیا کی زندگی محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
رب ذوالجلال کا فرمان ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِؕ- وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ- فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ- وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
ترجمہ کنزالایمان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
(سورۃ آل عمران: 185)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کا سامان ہی ہے۔ لہٰذا، ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے اور ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لیے اپنی قیمتی آخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے۔ اسی مفہوم کے موافق مزید دو آیتیں قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔
دنیا کی حقیقت کی وضاحت کے لیے اگر قرآنِ مجید کی طرف نظر کی جائے تو بہترین مثال ملتی ہے۔ قال اللہ تعالیٰ فی القرآن الکریم:
اِعْلَمُوْۤا أَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ وَ الْأَوْلَادِؕ- كَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ- وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ- وَ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ- وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔
(سورۃ الحدید، آیت 20)
چنانچہ، مذکورہ آیت کی تفسیر مفتی قاسم عطاری صاحب نے اپنی کتاب تفسیر تعلیم القرآن میں کچھ یوں لکھی ہے کہ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں پانچ چیزیں اور ایک مثال بیان فرمائی ہے:
1. دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کود ہے، جو بچوں کا کام ہے،
2. صرف اس کے حصول میں محنت و مشقت کرتے رہنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں،
3. دنیا کی زندگی زینت و آرائش کا نام ہے، جو کہ عورتوں کا شیوہ ہے،
4. دنیا کی زندگی آپس میں فخر و غرور کرنے،
5. اور مال و اولاد میں زیادتی چاہنے کا نام ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش، جس کا اگایا ہوا سبزہ کسانوں کو اچھا لگتا ہے، پھر وہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے، تو تم اسے زرد دیکھتے ہو، پھر وہ پامال ہو کر بے کار ہو جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کی مذمت کے بارے میں قرآنِ پاک کی بہت سی آیات آئی ہیں۔ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ کے مقاصد میں ایک مقصد دنیا کی محبت سے لوگوں کو بچانا بھی تھا۔ اس لیے انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کے سامنے مختلف انداز میں دنیا کی مذمت بیان فرمائی۔ ہمارے آقا ﷺ نے بھی اپنی امت کے سامنے دنیا کی مذمت بیان فرمائی، اس سے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر اللہ کے نزدیک اس دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ کرتا۔"
اسی طرح سنن ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ ہے، جس کے راوی سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ کہتے ہیں: میں ان لوگوں کے ساتھ تھا، جو کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مردہ بکری کے بچے پر کھڑے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم اس مردہ بکری کے بچے کو دیکھ رہے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک کس قدر حقیر ہوگا جب اس نے اسے پھینکا ہوگا؟" صحابہ نے عرض کی: "اس نے اسے حقیر سمجھ کر ہی پھینکا ہے، اے اللہ کے رسول!" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکری کے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔"
مردہ جانور کو کس قدر حقیر سمجھا جاتا ہے، اگر کہیں پڑا ہو تو ہم ناک پر ہاتھ یا کپڑا رکھ کر گزرتے ہیں، اس سے بے حد نفرت کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔ اس لیے ہمیں دنیا کی نہیں، آخرت کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تو صرف دار الامتحان ہے۔ یہ صرف اسی کو اچھی لگتی ہے جو شیطان کا دوست ہے۔ اور جو اللہ کا دوست ہے، وہ اس فانی دنیا میں ہر وقت اللہ کو راضی کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون ہے، البتہ دنیا میں سے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، وہ ملعون نہیں۔"
(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷، الحدیث: ۶۰۸۰)
پتا چلا کہ اگر ہم کسی نیکی کے ذریعہ اس ملعون دنیا کو طلب کریں، تو ہمارا اصل مقصود فوت ہو جائے گا۔ لہٰذا ہر اچھا کام خالص اللہ کی رضا کے لیے ہی کرنا چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن مسور ہاشمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق کرتا ہے، لیکن دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لیے کوشش کرتا ہے۔"
(مسند شہاب، الباب الثالث، الجزء الخامس، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)
مقامِ غور و فکر ہے کہ اس فانی دنیا کی نعمتیں قلیل ہونے کے باوجود بغیر کوشش کے حاصل نہیں ہوتیں، تو ابدی زندگی، یعنی جنت کی نعمتیں بغیر محنت و مشقت کے کیسے حاصل ہوں گی؟
حضرت ذوالنون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: "اے مریدین کے گروہ! دنیا طلب نہ کرو، اور اگر طلب کرو تو اس سے محبت نہ کرو، یہاں سے صرف زادِ راہ لو، کیونکہ آرام گاہ تو اور ہے (یعنی آخرت)۔"
(مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۰)
نیز اگر دنیا کی مثال ایک دلدل سے دیں، تو غلط نہ ہوگا۔ جس طرح دلدل میں پھنسنے کے بعد باہر نکلنا کافی دشوار ہوتا ہے، اسی طرح جب بندہ دنیا کی تاریکیوں میں بھٹک جاتا ہے، تو اس سے بچ کر ہدایت کی راہ پر آنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ بہرحال، ہمیں دنیا سے زیادہ آخرت کو ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ وہی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا (16) وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ أَبْقٰى (17)
ترجمہ کنزالایمان: بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
(سورۃ الأعلى)
دنیا مطلب کی ہے، تم کس مخلص کی بات کرتے ہو غالب
لوگ جنازہ پڑھنے آتے ہیں، وہ بھی اپنے ثواب کی خاطر
اللہ تعالیٰ ہم تمام کو دنیا کی محبت سے ہمارے دلوں کی حفاظت فرمائے، نیز آخرت کی بھرپور تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ