مزید اپڈیٹس کا کام جاری ہے! اپنے مشورے دیجیے ہم سے رابطہ کریں!

چوتھے دن کی قربانی پر غیر مقلدین کی دلیل کا جواب

کیا ایام تشریق میں چوتھے دن قربانی جائز ہے؟ غیر مقلدین کی پیش کردہ حدیث "ایام التشریق کلھا ذبح" کا مفصل تحقیقی جائزہ۔ ضعیف روایت، راوی پر جرح اور محدث
چوتھے دن کی قربانی پر غیر مقلدین کی دلیل کا جواب ایام تشریق میں چوتھے دن کی قربانی؟ غیر مقلدین کی حدیث کا تحقیقی جائزہ کیا ایام تشریق میں چوتھے دن قربانی جائز ہے؟ غیر مقلدین کی پیش کردہ حدیث "ایام التشریق کلھا ذبح" کا مفصل تحقیقی جائزہ۔ ضعیف روایت، راوی پر جرح اور محدثین کی آراء پر مبنی علمی مضمون۔مولانا سلیم رضا مدنی, مضمون نگاری,غیر مقلدین کے اعترضات کا جواب, مدنی دنیا
کتبہ: مولانا محمد سلیم رضا مدنی متخصص فی الحدیث (10 جون 2025ء، بروز منگل)

غیر مقلدین کی پیش کردہ حدیث کی تحقیق
ایامِ تشریق سب کے سب ایامِ ذبح ہیں۔

غیر مقلدین چوتھے دن کی قربانی پر عموماً حضرت جبیر بن مطعِم والی روایت پیش کرتے ہیں۔ سند اور متن یہ ہے: حدثنا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ"
ترجمہ: جبیر بن مطعم سے روایت ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ایامِ تشریق تمام ہی ذبح کے دن ہیں۔"
(السنن الکبریٰ للبیہقی، رقم الحدیث: 19242)

تبصرہ:

اولاً: غیر مقلدین جو ہر مسئلے میں بخاری، مسلم اور صحاحِ ستہ سے حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ اپنے اس موقف پر صحاح ستہ سے حدیث کیوں پیش نہیں کر سکے؟ نیز ایک سوال کرنا ہمارا بھی حق ہے کہ جب ایامِ تشریق تمام ہی قربانی کے ایام ہیں، اس لیے تیرہ ذو الحجہ کو بھی قربانی جائز ہے، تو پھر ۹ ذو الحجہ بھی ایامِ تشریق میں سے ہے، تو پھر محترم! آپ ۹ کو قربانی کر کے ۱۰ کو عید کیوں نہیں کرتے؟ کیا ۹ ذو الحجہ ایامِ تشریق سے نہیں؟
ثانیاً: ہر مسئلے میں صحیح حدیث کا مطالبہ کرنے والے اب احکامِ قربانی میں ضعیف حدیث کیوں پیش کر رہے ہیں؟ مذکورہ حدیث میں ایک راوی سُوَيْد بْن عَبْدِ الْعَزِيز ہے۔ جس راوی کے تعلق سے عبد اللہ بنِ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي عَنْ سُوَيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَقَالَ: مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ۔
ترجمہ: میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے سوید بن عبدالعزیز کے بارے میں سوال کیا، تو فرمایا: متروک الحدیث ہے۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی، ج: 2، ص: 157، طبع: دار المکتبۃ العلمیہ، بیروت)

حافظ الشان علامہ امام ابن حجر عسقلانی (المتوفیٰ 852ھ) سوید بن عبد العزیز کے بارے میں فرماتے ہیں:
قال ابن معین: ليس بثقة، وقال مرة: ليس بشيء، وقال مرة: ضعيف، وقال مرة: لا يجوز في الضحايا۔
یعنی: امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: یہ ثقہ نہیں ہے، اور کبھی فرماتے: "کوئی شے نہیں ہے"، اور کبھی "ضعیف" فرماتے، اور کبھی فرماتے: "قربانی کے بیان میں سوید بن عبدالعزیز سے روایت کرنا جائز نہیں۔"
کیوں! اب ان محدثین کی جرح قبول ہے بھی یا نہیں؟ یا پھر احناف کی مؤید احادیث کے راویوں پر ہی جرح قبول ہے؟ اب ذرا کچھ اور محدثین کی جرح بھی ملاحظہ فرمائیں:
علامہ ابن حجر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: قال ابن سعد: روى أحاديث منكرة۔
قال البخاري: في حديثه مناكير أنكرها۔
وقال النسائي: ليس بثقة، وقال مرة: ضعيف۔
قال ابن أبي حاتم عن أبيه: لين الحديث، في حديثه نظر۔
وقال أبو عيسى الترمذي في كتاب العلل الكبير: سويد بن عبد العزيز كثير الغلط في الحديث۔
وقال الخلال: ضعيف الحديث۔
وقال أبو بكر البزار في مسنده: ليس بالحافظ۔

ترجمہ: ابن سعد اور امام بخاری فرماتے ہیں: یہ منکر احادیث روایت کرتا ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں: ثقہ نہیں ہے، اور کبھی فرماتے: "ضعیف راوی ہے۔"
امام حاتم فرماتے ہیں: "حدیث میں کمزور ہے، اس کی روایت کردہ حدیث محل نظر ہے۔"
امام ترمذی فرماتے ہیں: "کثیر الغلط ہے۔"
خلال کہتے ہیں: "ضعیف الحدیث ہے۔"
ابو بکر بزار فرماتے ہیں: "حافظ نہیں تھا۔"

(تهذیب التهذیب، ج: 4، ص: 286، طبع: مطبعہ دائرۃ المعارف النظامیۃ، الهند - ملتقطاً)

حکمِ حدیث:

سند کا حال تو آپ نے ملاحظہ کیا، اب ذرا محدثین کی زبانی حکمِ حدیث بھی سنیے:
امام بزار نے اپنی مسند میں فرمایا: ابو حسین کی جبیر بن مطعم سے ملاقات ثابت نہیں، لہٰذا یہ حدیث منقطع ہے۔
امام بیہقی نے اس حدیث کے تعلق سے فرمایا: منقطع ہے۔
امام دار قطنی نے فرمایا: ضعیف ہے۔
چنانچہ الدرایہ فی تخریج أحادیث الہدایہ میں ہے: حديث "أيام التشريق كلها أيام ذبح" أحمد وابن حبان من حديث جبير بن مطعم من رواية عبد الرحمن بن أبي حسين عنه، وأورده البزار من هذا الوجه، وقال إنه منقطع، وأخرجه الدارقطني من وجهين آخرين موصولين فيهما ضعف، أخرج أحدهما البزار، وأخرجه أحمد والبيهقي من طريق سليمان بن موسى عن جبير بن مطعم وهي منقطعة أيضاً۔
ترجمہ: حدیث "ایامِ تشریق تمام ہی ایامِ ذبح ہیں" کو احمد اور ابن حبان نے عبدالرحمن بن ابی حسین کی سند سے جبیر بن مطعم سے روایت کیا۔ امام بزار نے اس سند کو منقطع قرار دیا۔ امام دارقطنی نے دو اور موصول سندوں سے روایت کیا، مگر دونوں میں ضعف ہے۔ بزار، احمد اور بیہقی نے سلیمان بن موسی عن جبیر بن مطعم کی سند سے روایت کیا، وہ بھی منقطع ہے۔

خلاصۂ کلام

غیر مقلدین بطورِ دلیل جس حدیث کو پیش کرتے ہیں، محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، اور چوتھے دن کی قربانی کے جائز ہونے پر پیش کردہ دلائل کو کمزور قرار دیا ہے۔ لہٰذا قرآن و سنت، آثارِ صحابہ اور فقہائے امت سے ثابت ہوا کہ ایامِ قربانی صرف تین ہیں: دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ۔ اور یہی امت کا معمول ہے، اسی پر قائم رہنا صحابہ و فقہائے امت کی پیروی کرنا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
NextGen Digital واٹس ایپ چیٹ پر آپ کو خوش آمدید
السلام علیکم ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہئں؟?
Type here...