سفر کیا کریں!
سفر آپ کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ سفر سے چیزیں کھلتی اور واضح ہوتی ہیں۔ سفر کرنے سے انسانی صلاحیت و قابلیت میں حد درجہ اضافہ ہوتا ہے۔ سفر انسان کو مختلف ذہنیت اور افکار کے لوگوں سے ملاقات کراتا ہے۔
لہٰذا آپ بھی سفر کیا کریں۔ آپ کی صلاحیتوں میں نکھار آئے گا، آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھے گی۔
سفر محض ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا نام نہیں بلکہ تجربات، علم اور آگاہی کے دروازے کھولنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔
جو لوگ سفر کرتے ہیں، وہ نئی جگہوں، تہذیبوں، زبانوں اور مختلف ذہنیت کے حامل لوگوں سے مل کر زندگی کے کئی اہم اسباق سیکھتے ہیں۔
شاید اسی لیے ہمارے بزرگانِ دین کی سیرت میں سفر کا ایک طویل باب پڑھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے علم و ادب کے حصول کے لیے نہ صرف ایک شہر سے دوسرے شہر، بلکہ دور دراز ملکوں تک کا سفر اختیار کیا، اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا جہان کے سامنے پیش کیا۔
اگر صرف بزرگوں کے اسفار پر کتابیں لکھی جائیں تو جلدیں تیار ہو جائیں!
سفر، شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے
سفر انسان کو خودمختاری اور خود اعتمادی سکھاتا ہے۔
راستے میں پیش آنے والی مشکلات، مصیبتیں اور غیر متوقع حالات، نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے۔
ایک مسافر کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ نئی جگہوں پر راستہ ڈھونڈنا، مختلف زبان بولنے والے لوگوں سے بات چیت کرنا، اور بعض اوقات محدود وسائل میں اپنا انتظام کرنا۔
یہ سب چیزیں اس کی ذہانت، فیصلہ کرنے، سمجھنے کی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کی مہارت کو بہتر بناتی ہیں۔
سفر سے لوگوں کی ذہنیت اور کلچر کا علم ہوتا ہے
جب آپ کسی نئی جگہ پر جاتے ہیں، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں تو آپ کو ان کے افکار اور سوچ کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے کلچر اور رہنے سہنے کے انداز کا صحیح علم ہوتا ہے۔
اس مقام کی تاریخ، ثقافت، وہاں کی رسم و رواج کی درست معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
سفر کرنے سے قوتِ برداشت پیدا ہوتی ہے
انسان جب سفر کرتا ہے، چاہے فلائٹ کا ہو یا ٹرین کا، یا پھر کسی بھی ذریعے سے طے کیا جائے، لازمی طور پر اس میں کچھ پریشانیاں اور آزمائشیں آتی ہیں۔
بعض اوقات کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑھنے پر، کسی غلط جگہ کے انتخاب پر، کسی ضروری سامان کے چھوٹ جانے پر، یا پھر زیادہ سامان ہونے پر،
کبھی صحیح لوکیشن معلوم نہ ہونے پر، کبھی گاڑی وغیرہ چھوٹ جانے پر۔
الغرض! سفر ہے تو آزمائش آنی ہے۔
اب یہ آزمائشیں کہیں نہ کہیں انسان کو صبر کرنے والا بناتی ہیں۔
اس سے اس کے اندر قوتِ برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔
اور جو انسان ان چیزوں کی بنیاد پر سفر کرنا ہی چھوڑ دے، وہ بہت ساری خوبیوں سے خود کو آراستہ نہیں کر پاتا۔
ہمیں چاہیے کہ دین و دنیا دونوں کے مختلف مقاصد کے پیش نظر سفر کیا کریں۔
کبھی تجارت کے لیے، کبھی طلبِ علم کے لیے، کبھی لوگوں کو دین سکھانے کے لیے۔
اے کاش! ایسا ہو جائے کہ ہمیں بار بار مکہ و مدینہ کا سفر نصیب ہو۔
اس سفر کی شان ہی نرالی ہے۔
شاعر کہتا ہے:
دنیا دیاں سفراں تو بندہ اک وی تے جاندا اے،
پر سفر مدینے دا ہر بار بڑا سوہنا۔
ایک دوسرے شاعر نے کہا:
خدا جانے کہ طیبہ کو ہمارا کب سفر ہوگا،
مدینے کو ہزاروں قافلے ہر سال جاتے ہیں۔
جگا دیتے ہیں قسمت چاہتے ہیں جس کی دم بھر میں،
وہ جس کو چاہتے ہیں اپنے روضے پر بلاتے ہیں۔
علمِ دین کے لیے سفر
اس عنوان پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے حصولِ علم کے لیے سفر کرنے اور واپس آ کر لوگوں کو دین سکھانے کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:
اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکل جائیں، تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب ان کی طرف واپس آئیں تو انہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں۔
(پارہ 11، سورۃ التوبہ: آیت 122)
اس کے علاوہ کئی احادیث ہیں جن میں حصولِ علم کے لیے سفر کرنے کے فضائل و برکات کا بیان ہے۔
حافظِ مغرب، علامہ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ [وفات: 463ھ] نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں اس طرح کی کئی احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّينِ، فَإِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔
علم حاصل کرو، اگرچہ چین جانا پڑے، بیشک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
[جامع بیان العلم وفضلہ، جلد 1، صفحہ 30، طبع: دار ابن الجوزی - سعودی عرب]
اس حدیثِ شریف سے طلبِ علم کے لیے سفر کی فضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
حافظِ مشرق، علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ [وفات: 463ھ] نے اس موضوع پر 181 صفحات پر مشتمل خاص ایک رسالہ لکھا، جس کا نام الرحلہ فی طلب الحدیث ہے، جو دارالکتب العلمیہ، بیروت سے شائع ہوا۔ اس میں بھی اس حوالے سے کافی مواد موجود ہے۔ شائقین ضرور مطالعہ فرمائیں۔
خدائے قادر و قیوم ہمیں حصولِ علم اور اشاعتِ علم کے لیے سفر کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین
عمران رضا عطاری مدنی